سورة النور - آیت 11

إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں وہ تمھی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی کی شہادت اس آیت سے لے کر دسویں آیت تک ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب کہ منافقین نے آپ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھا تھا جس پر اللہ کو بہ سبب قرابت داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرت آئی اور یہ آیتیں نازل فرمائیں تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر حرف نہ آئے ۔ ان بہتان بازوں کی ایک پارٹی تھی ۔ اس لعنتی کام میں سب سے پیش پیش عبداللہ بن ابی بن سلول تھا جو تمام منافقوں کا گرو گھنٹال تھا ۔ اس بے ایمان نے ایک ایک کان میں بنا بنا کر اور مصالحہ چڑھ چڑھا کر یہ باتیں خوب گھڑ گھڑ کر پہنچائی تھیں ۔ یہاں تک کہ بعض مسلمانوں کی زبان بھی کھلنے لگی تھی اور یہ چہ میگوئیاں قریب قریب مہینے بھر تک چلتی رہیں ۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس واقعے کا پورا بیان صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ سفر میں جانے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے نام کا قرعہ ڈالتے اور جس کا نام نکلتا اسے اپنے ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ ایک غزوے کے موقعہ پر میرا نام نکلا ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلی ، یہ واقعہ پردے کی آیتیں اترنے کے بعد کا ہے ۔ میں اپنے ھودج میں بیٹھی رہتی اور جب قافلہ کہیں اترتا تو میرا ھودج اتار لیا جاتا ۔ میں اسی میں بیٹھی رہتی جب قافلہ چلتا یونہی ھودج رکھ دیا جاتا ۔ ہم گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوے سے فارغ ہوئے ، واپس لوٹے ، مدینے کے قریب آ گئے رات کو چلنے کی آواز لگائی گئی میں قضائے حاجت کیلئے نکلی اور لشکر کے پڑاؤ سے دور جا کر میں نے قضائے حاجت کی ۔ پھر واپس لوٹی ، لشکر گاہ کے قریب آ کر میں نے اپنے گلے کو ٹٹولا تو ہار نہ پایا ۔ میں واپس اس کے ڈھونڈنے کیلئے چلی اور تلاش کرتی رہی ۔ یہاں یہ ہوا کہ لشکر نے کوچ کردیا جو لوگ میرا ھودج اٹھاتے تھے انہوں نے یہ سمجھ کر کہ میں حسب عادت اندر ہی ہوں ۔ ھودج اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور چل پڑے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت تک عورتیں نہ کچھ ایسا کھاتی پیتی تھیں نہ وہ بھاری بدن کی بوجھل تھیں ۔ تو میرے ھودج کے اٹھانے والوں کو میرے ہونے نہ ہونے کا مطلق پتہ نہ چلا ، اور میں اس وقت اوائل عمر کی تو تھی ہی } ۔ { الغرض بہت دیر کے بعد مجھے میرا ہار ملا جب میں یہاں پہنچی تو کسی آدمی کا نام و نشان بھی نہ تھا نہ کوئی پکارنے والا ، نہ جواب دینے والا ، میں اپنے نشان کے مطابق وہیں پہنچی ، جہاں ہمارا اونٹ بٹھایا گیا تھا اور وہیں انتظار میں بیٹھ گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آگے چل کر میرے نہ ہونے کی خبر پائیں گے تو مجھے تلاش کرنے کیلئے یہیں آئیں گے ، مجھے بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی ۔ اتفاق سے صفوان بن معطل سلمی ذکوانی رضی اللہ عنہ جو لشکر کے پیچھے رہے تھے اور پچھلی رات کو چلے تھے ، صبح کی روشنی میں یہاں پہنچ گئے ۔ ایک سوتے ہوئے آدمی کو دیکھ کر خیال آنا ہی تھا ، غور سے دیکھا تو چونکہ پردے کے حکم سے پہلے مجھے انہوں نے دیکھا ہوا تھا ۔ دیکھتے ہی پہچان گئے اور باآواز بلند ان کی زبان سے «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:157) نکلا ان کی آواز سنتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ کر سنبھل بیٹھی ۔ انہوں نے جھٹ اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے ہاتھ پر اپنا پاؤں رکھا میں اٹھی اور اونٹ پر سوار ہوگئی ۔ انہوں نے اونٹ کو کھڑا کردیا اور بھگاتے ہوئے لے چلے ۔ قسم اللہ کی نہ وہ مجھ سے کچھ بولے ، نہ میں نے ان سے کوئی کلام کیا نہ سوائے اناللہ کے میں نے ان کے منہ سے کوئی کلمہ سنا ۔ دوپہر کے قریب ہم اپنے قافلے سے مل گئے ۔ پس اتنی سی بات کا ہلاک ہونے والوں نے بتنگڑ بنا لیا ۔ ان کا سب سے بڑا اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا } ۔ { مدینے آتے ہی میں بیمار پڑگئی اور مہینے بھر تک بیماری میں گھر ہی میں رہی ، نہ میں نے کچھ سنا ، نہ کسی نے مجھ سے کہا جو کچھ غل غپاڑہ لوگوں میں ہو رہا تھا ، میں اس سے محض بے خبر تھی ۔ البتہ میرے جی میں یہ خیال بسا اوقات گزرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرو محبت میں کمی کی کیا وجہ ہے ؟ بیماری میں عام طور پر جو شفقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے ساتھ ہوتی تھی اس بیماری میں وہ بات نہ پاتی تھی ۔ مجھے رنج تو بہت تھا مگر کوئی وجہ معلوم نہ تھی ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے سلام کرتے اور دریافت فرماتے { طبیعت کیسی ہے ! } اور کوئی بات نہ کرتے اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوتا مگر بہتان بازوں کی تہمت سے میں بالکل غافل تھی } ۔ { اب سنئے اس وقت تک گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہوتے تھے اور عرب کی قدیم عادت کے مطابق ہم لوگ میدان میں قضائے حاجت کیلئے جایا کرتے تھے ۔ عورتیں عموماً رات کو جایا کرتی تھیں ۔ گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے عام طور پر نفرت تھی ، حسب عادت میں ، ام مسطح بنت ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبدالمناف رضی اللہ عنہا کے ساتھ قضائے حاجت کیلئے چلی ۔ اس وقت میں بہت ہی کمزور ہو رہی تھی یہ ام مسطح رضی اللہ عنہا میرے والد صاحب رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں ان کی والدہ صخر بن عامر کی لڑکی تھیں ، ان کے لڑکے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن عبدالمطلب تھا ۔ جب ہم واپس آنے لگے تو ام مسطح رضی اللہ عنہا کا پاؤں چادر کے دامن میں الجھا اور بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ مسطح غارت ہو ۔ مجھے بہت برا لگا اور میں نے کہا کہ تم نے بہت برا کلمہ بولا ، توبہ کرو ، تم اسے گالی دیتی ہو ، جس نے جنگ بدر میں شرکت کی ۔ اس وقت ام مسطح رضی اللہ عنہا نے کہا بھولی بیوی آپ کو کیا معلوم ؟ میں نے کہا کیا بات ہے ؟ انہوں نے فرمایا وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جو آپ رضی اللہ عنہا کو بدنام کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی میں ان کے سر ہوگئی کہ کم از کم مجھ سے سارا واقعہ تو کہو ۔ اب انہوں نے بہتان باز لوگوں کی تمام کارستانیاں مجھے سنائیں ۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ، رنج و غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا ، مارے صدمے کے میں تو اور بیمار ہو گئی ۔ بیمار تو پہلے سے ہی تھی ، اس خبر نے تو نڈھال کر دیا ، جوں توں کر کے گھر پہنچی ۔ اب صرف یہ خیال تھا میں اپنے میکے جا کر اور اچھی طرح معلوم تو کر لوں کہ کیا واقعی میری نسبت ایسی افواہ پھیلائی گئی ہے ؟ اور کیا کیا مشہور کیا جا رہا ہے ؟ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ، سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ { کیا حال ہے ؟ } میں نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو اپنے والد صاحب کے ہاں ہو آؤں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی ، میں یہاں آئی ، اپنی والدہ سے پوچھا کہ اماں جان لوگوں میں کیا باتیں پھیل رہی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا بیٹی یہ تو نہایت معمولی بات ہے تم اتنا اپنا دل بھاری نہ کرو ، کسی شخص کی اچھی بیوی جو اسے محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں وہاں ایسی باتوں کا کھڑا ہونا تو لازمی امر ہے ۔ میں نے کہا سبحان اللہ کیا واقعی لوگ میری نسبت ایسی افواہیں اڑا رہے ہیں ؟ اب تو مجھے غم و رنج نے اس قدر گھیرا کہ بیان سے باہر ہے ۔ اس وقت سے جو رونا شروع ہوا واللہ ایک دم بھر کیلئے میرے آنسو نہیں تھمے ، میں سر ڈال کر روتی رہتی ۔ کس کا کھانا پینا ، کس کا سونا بیٹھنا ، کہاں کی بات چیت ، غم و رنج اور رونا ہے اور میں ہوں ۔ ساری رات اسی حالت میں گزری کہ آنسو کی لڑی نہ تھمی دن کو بھی یہی حال رہا } ۔ { آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بلوایا ، وحی میں دیر ہوئی ، اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات معلوم نہ ہوئی تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے الگ کر دیں یا کیا ؟ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو صاف کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کی اہل پر کوئی برائی نہیں جانتے ۔ ہمارے دل ان کی عفت ، عزت اور شرافت کی گواہی دینے کیلئے حاضر ہیں ۔ ہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی تنگی نہیں ، عورتیں ان کے سوا بھی بہت ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کی خادمہ سے پوچھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح واقعہ معلوم ہوسکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت گھر کی خادمہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ { عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی بات شک و شبہ والی کبھی بھی دیکھی ہو تو بتاؤ } ۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا ہے میں نے ان سے کوئی بات کبھی اس قسم کی نہیں دیکھی ۔ ہاں صرف یہ بات ہے کہ کم عمری کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی کبھی گندھا ہوا آٹا یونہی رکھا رہتا ہے اور سوجاتی ہیں تو بکری آکر کھاجاتی ہے ، اس کے سوا میں نے ان کا کوئی قصور کبھی نہیں دیکھا ۔ چونکہ کوئی ثبوت اس واقعہ کا نہ ملا اس لیے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور مجمع سے مخاطب ہو کر فرمایا : { کون ہے ؟ جو مجھے اس شخص کی ایذاؤں سے بچائے جس نے مجھے ایذائیں پہنچاتے پہنچاتے اب تو میری گھر والیوں میں بھی ایذائیں پہنچانا شروع کردی ہیں ۔ واللہ میں جہاں تک جانتا ہوں مجھے اپنی گھر والیوں میں سوائے بھلائی کے کوئی چیز معلوم نہیں ، جس شخص کا نام یہ لوگ لے رہے ہیں ، میری دانست تو اس کے متعلق بھی سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں وہ میرے ساتھ ہی گھر میں آتا تھا } ۔ { یہ سنتے ہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوں اگر وہ قبیلہ اوس کا شخض ہے تو ابھی ہم اس کی گردن تن سے الگ کرتے ہیں اور اگر وہ ہمارے خزرج بھائیوں سے ہے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو حکم دیں ہمیں اس کی تعمیل میں کوئی عذر نہ ہوگا ۔ یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے یہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے ۔ تھے تو یہ بڑے نیک بخت مگر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے نہ تو تو اسے قتل کرے گا نہ اس کے قتل پر تو قادر ہے اگر وہ تیرے قبیلے کا ہوتا تو تو اس کا قتل کیا جانا کبھی پسند نہ کرتا ۔ یہ سن کر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے یہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ہوتے تھے کہنے لگے اے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تم جھوٹ کہتے ہو ، ہم اسے ضرور مار ڈالیں گے آپ منافق آدمی ہیں کہ منافقوں کی طرف داری کر رہے ہیں ۔ اب ان کی طرف سے ان کا قبیلہ اور ان کی طرف سے ان کا قبیلہ ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گیا اور قریب تھا کہ اوس و خزرج کے یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ پڑیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر سے ہی انہیں سمجھانا اور چپ کرانا شروع کیا یہاں تک کہ دونوں طرف خاموشی ہوگئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپکے ہو رہے یہ تو تھا وہاں کا واقعہ ۔ میرا حال یہ تھا کہ یہ سارا دن بھی رونے میں ہی گزرا ۔ میرے اس رونے نے میرے ماں باپ کے بھی ہوش گم کر دیئے تھے ، وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ رونا میرا کلیجہ پھاڑ دے گا ۔ دونوں حیرت زدہ مغموم بیٹھے ہوئے تھے اور مجھے رونے کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اتنے میں انصار کی ایک عورت آئیں اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی ہم یونہی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشیرف لائے اور سلام کر کے میرے پاس بیٹھ گئے ۔ قسم اللہ کی جب سے یہ بہتان بازی ہوئی تھی آج تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے ۔ مہینہ بھر گزر گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت تھی ۔ کوئی وحی نہیں آئی تھی کہ فیصلہ ہو سکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھتے ہی اول تو تشہد پڑھا پھر امابعد فرما کر فرمایا کہ { اے عائشہ ! تیری نسبت مجھے یہ خبر پہنچی ہے ۔ اگر تو واقعی پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاکیزگی ظاہر فرما دے گا اور اگر فی الحقیقت تو کسی گناہ میں آلودہ ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر اور توبہ کر ، بندہ جب گناہ کر کے اپنے گناہ کے اقرار کے ساتھ اللہ کی طرف جھکتا ہے اور اس سے معافی طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے } ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا فرما کر خاموش ہوگئے یہ سنتے ہی میرا رونا دھونا سب جاتا رہا ۔ آنسو تھم گئے یہاں تک کہ میری آنکھوں میں آنسو کا ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ۔ { میں نے اول تو اپنے والد سے درخواست کی کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہ ہی جواب دیجئیے لیکن انہوں نے فرمایا کہ واللہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں ؟ اب میں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نہیں سمجھ سکتی کہ میں کیا جواب دوں ؟ آخر میں نے خود ہی جواب دینا شروع کیا ۔ میری عمر کچھ ایسی بڑی تو نہ تھی اور نہ مجھے زیادہ قرآن حفظ تھا ۔ میں نے کہا ، آپ سب نے ایک بات سنی ، اسے آپ نے دل میں بٹھا لیا اور گویا سچ سمجھ لیا ۔ اب اگر میں کہوں گی کہ میں اس سے بالکل بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں تو تم ابھی مان لو گے ۔ میری اور تمہاری مثال تو بالکل ابو یوسف علیہ السلام کا یہ قول ہے آیت «فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَ اللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَیٰ مَا تَصِفُونَ» ۱؎ (12-یوسف:18) پس صبر ہی اچھا ہے جس میں شکایت کا نام ہی نہ ہو اور تم جو باتیں بناتے ہو ان میں اللہ ہی میری مدد کرے ، اتنا کہہ کر میں نے کروٹ پھیر لی اور اپنے بستر پر لیٹ گئی ۔ اللہ کی قسم مجھے یقین تھا کہ چونکہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ میری برأت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور معلوم کرا دے گا لیکن یہ تو میرے شان و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیتیں نازل ہوں ۔ میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر جانتی تھی کہ میرے بارے میں کلام اللہ کی آیتیں اتریں ۔ ہاں مجھے زیادہ سے زیادہ یہ خیال ہوتا تھا کہ ممکن ہے خواب میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری برأت دکھا دے ۔ واللہ ابھی تو نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے ہٹے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی گھر سے باہر نکلا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوگئی ۔ اور چہرہ پر وہی آثار ظاہر ہوئے جو وحی کے وقت ہوتے تھے اور پیشانی سے پسینے کی پاک بوندیں ٹپکنے لگیں ۔ سخت جاڑوں میں بھی وحی کے نزول کی یہی کیفیت ہوا کرتی تھی ، جب وحی اتر چکی تو ہم نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہنسی سے شگفتہ ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھ کر فرمایا : { عائشہ خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برأت نازل فرما دی } ۔ اسی وقت میری والدہ نے فرمایا بچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ ۔ میں نے جواب دیا کہ واللہ نہ تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوں گی اور نہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی تعریف کروں گی اسی نے میری برأت اور پاکیزگی نازل فرمائی ہے ۔ پس آیت «إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْکِ» ۱؎ (24-النور:11) سے لے کر دس آیتوں تک نازل ہوئیں ۔ { ان آیتوں کے اترنے کے بعد اور میری پاک دامنی ثابت ہوچکنے کے بعد اس شر کے پھیلانے میں مسطح بن اثاثہ بھی شریک تھے اور انہیں میرے والد صاحب ان کی محتاجی اور ان کی قرابت داری کی وجہ سے ہمیشہ کچھ دیتے رہتے تھے ۔ اب انہوں نے کہا جب اس شخص نے میری بیٹی پر تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو اب میں اس کے ساتھ کچھ بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اس پر آیت «وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِ أَن یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَیٰ وَالْمَسَاکِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبٰونَ أَن یَغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَ اللہُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (24-النور:22) ، نازل ہوئی یعنی ’ تم میں سے جو لوگ بزرگی اور وسعت والے ہیں ، انہیں نہ چاہیئے کہ قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ کے مہاجروں سے سلوک نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھیں ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ یہ بخشش والا اور مہربانی والا اللہ تمہیں بخش دے ؟ ‘ اسی وقت اس کے جواب میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہا نے فرمایا قسم اللہ کی میں تو اللہ کی بخشش کا خواہاں ہوں ۔ چنانچہ اسی وقت مسطح رضی اللہ عنہ کا وظیفہ جاری کردیا اور فرما دیا کہ واللہ اب عمر بھر تک اس میں کمی یا کوتاہی نہ کروں گا ۔ میرے اس واقعہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ تھیں دریافت فرمایا تھا ۔ یہی بیوی صاحبہ تھیں جو حضور کی تمام بیویوں میں میرے مقابلے کی تھیں لیکن یہ اپنی پرہیزگاری اور دین داری کی وجہ سے صاف بچ گئیں اور جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو سوائے بہتری کے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتی ۔ میں اپنے کانوں کو اور اپنی نگاہ کو محفوظ رکھتی ہوں ۔ گو انہیں ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہت کچھ بہلاوے بھی دیئے بلکہ لڑ پڑیں لیکن انہوں نے اپنی زبان سے میری برائی کا کوئی کلمہ نہیں نکالا ۔ ہاں ان کی بہن نے تو زبان کھول دی اور میرے بارے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2661) یہ روایت بخاری مسلم وغیرہ حدیث کی بہت سی کتابوں میں ہے ۔ ایک سند سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا تھا کہ { جس شخص کی طرف منسوب کرتے ہیں ، وہ سفر حضر میں میرے ساتھ رہا میری عدم موجودگی میں کبھی میرے گھر نہیں آیا } اس میں ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں جو صاحب کھڑے ہوئے انہی کے قبیلے میں ام مسطح رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اسی خطبہ کے دن کے بعد رات کو میں ام مسطح کے ساتھ نکلی تھی ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ یہ پھسلیں اور انہوں نے اپنے بیٹے مسطح رضی اللہ عنہ کو کوسا ، میں نے منع کیا پھر پھسلیں ، پھر کوسا ، میں نے پھر روکا ۔ پھر الجھیں ، پھر کوسا تو میں نے انہیں ڈانٹنا شروع کیا ۔ اس میں ہے کہ اسی وقت سے مجھے بخار چڑھ آیا ۔ اس میں ہے کہ میری والدہ کے گھر پہنچانے کیلئے میرے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کر دیا تھا ۔ میں جب وہاں پہنچی تو میرے والد اوپر کے گھر میں تھے ۔ تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور والدہ نیچے کے مکان میں تھیں ۔ مجھے دیکھتے ہی میری والدہ نے دریافت فرمایا ! آج کیسے آنا ہوا ؟ تو میں نے تمام بپتا کہہ سنائی لیکن میں نے دیکھا کہ انہیں یہ بات نہ کوئی انوکھی بات معلوم ہوئی نہ اتنا صدمہ اور رنج ہوا جس کی توقع مجھے تھی ۔ اس میں ہے کہ میں نے والدہ سے پوچھا کیا میرے والد صاحب کو بھی اس کا علم ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی یہ بات پہنچی ہے ؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ اب تو مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونا آنے لگا یہاں تک کہ میری آواز اوپر میرے والد صاحب کے کان میں بھی پہنچی وہ جلدی سے نیچے آئے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میری والدہ نے کہا کہ انہیں اس تہمت کا علم ہو گیا ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ، یہ سن کر اور میری حالت دیکھ کر میرے والد صاحب رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے بیٹی میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ ابھی اپنے گھر لوٹ جاؤ ۔ چنانچہ میں واپس چلی گئی ۔ یہاں میرے پیچھے گھر کی خادمہ سے بھی میری بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور لوگوں کی موجودگی میں دریافت فرمایا ۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ میں عائشہ میں کوئی برائی نہیں دیکھتی بجز اس کے کہ وہ آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ، بے خبری سے سو جاتی ہیں ۔ بسا اوقات آٹا بکریاں کھا جاتی ہیں ۔ بلکہ اسے بعض لوگوں نے بہت ڈانٹا ڈپٹا بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ سچ بات جو ہو بتا دے اس پر بہت سختی کی لیکن اس نے کہا واللہ ایک سنار خالص سونے میں جس طرح کوئی عیب کسی طرح تپا تپا کر بھی بتا نہیں سکتا ۔ اسی طرح میں صدیقہ رضی اللہ عنہا پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی ۔ جب اس شخص کو یہ اطلاع پہنچی جنہیں بدنام کیا جا رہا تھا تو اس نے کہا قسم اللہ کی میں نے تو آج تک کسی عورت کا بازو کبھی کھولا ہی نہیں ۔ بالآخر یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے [ رضی اللہ عنہ ] ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عصر کی نماز کے بعد تشریف لائے تھے ۔ اس وقت میری ماں اور میرے باپ میرے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور وہ انصاریہ عورت جو آئی تھیں وہ دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں اس میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت شروع کی اور مجھ سے حقیقت حال دریافت کی تو میں نے کہا ہائے کیسی بے شرمی کی بات ہے ؟ اس عورت کا بھی تو خیال نہیں ؟ اس میں ہے کہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثناء کے بعد جواب دیا تھا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ میں نے اس وقت ہر چند یعقوب علیہ السلام کا نام تلاش کیا لیکن واللہ وہ زبان پر نہ چڑھا ، اسلئے میں نے ابو یوسف کہہ دیا ۔ اس میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے اترنے کے بعد مجھے خوشخبری سنائی واللہ اس وقت میرا غم بھرا غصہ بہت ہی بڑھ گیا تھا ۔ میں نے اپنے ماں باپ سے بھی کہا تھا کہ میں اس معاملے میں تمہاری بھی شکر گزار نہیں ۔ تم سب نے ایک بات سنی لیکن نہ تم نے انکار کیا نہ تمہیں ذرا غیرت آئی ۔ اس میں ہے کہ اس قصے کو زبان پر لانے والے حمنہ بنت حجش ، مسطح ، حسان بن ثبات اور عبداللہ بن ابی منافق تھے ۔ یہ سب کا سرغنہ تھا اور یہی زیادہ تر لگاتا بجھاتا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4757) اور حدیث میں ہے کہ { میرے عذر کی یہ آیتیں اترنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مردوں اور ایک عورت کو تہمت کی حد لگائی یعنی حسان بن ثابت ، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہم کو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4474،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک روایت میں ہے کہ { جب ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اوپر تہمت لگنے کا علم ہوا اور یہ بھی پتہ چلا کہ اس کا علم آپ رضی اللہ عنہا کے والد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو چکا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں ۔ جب ذرا ہوش میں آئیں تو سارا جسم تپ رہا تھا اور زور کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کانپ رہی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ نے اسی وقت لحاف اوڑھا دیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پوچھا { یہ کیا حال ہے ؟ } میں نے کہا جاڑے سے بخار چڑھا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید اس خبر کو سن کر یہ حال ہو گیا ہوگا ؟} جب آپ رضی اللہ عنہا کے عذر کی آیتیں اتریں اور آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں سن کر فرمایا کہ ” یہ اللہ کے فضل سے ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل سے “ ۔ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کہتی ہو ؟ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ہاں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3388) اب آیتوں کا مطلب سنئے جو لوگ جھوٹ بہتان گھڑی ہوئی بات لے آئے اور وہ ہیں بھی زیادہ اسے تم اے آل ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ انجام کے لحاظ سے دین و دنیا میں وہ تمہارے لیے بھلا ہے ۔ دنیا میں تمہاری صداقت ثابت ہوگی ، آخرت میں بلند مراتب ملیں گے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت قرآن کریم میں نازل ہوگی ، جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آسکتا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اماں صاحبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے آخری وقت آئے تو فرمانے لگے ” ام المؤمنین رضی اللہ عنہا آپ خوش ہو جائیے کہ آپ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ رہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت سے پیش آتے رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کی برأت آسمان سے نازل ہوئی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4753) ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہم اپنے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرنے لگیں تو ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میرا نکاح آسمان سے اترا “ ، اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میری پاکیزگی کی شہادت قرآن میں آسمان سے اتری جب کہ صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ مجھے اپنی سواری پر بٹھا لائے تھے “ ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا ” یہ تو بتاؤ جب تم اس اونٹ پر سوار ہوئی تھیں تو تم نے کیا کلمات کہے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ » ۱؎ (3-آل عمران:173) اس پر وہ بول اٹھیں کہ ” تم نے مومنوں کا کلمہ کہا تھا “ ۔ پھر فرمایا ’ جس جس نے پاک دامن صدیقہ پر تہمت لگائی ہے ہر ایک کو بڑا عذاب ہوگا ، اور جس نے اس کی ابتداء اٹھائی ہے ، جو اسے ادھر ادھر پھیلاتا رہا ہے اس کیلئے سخت تر عذاب ہیں ‘ ۔ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ملعون ہے ، ٹھیک قول یہی ہے گو کسی کسی نے کہا کہ مراد اس سے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ ہیں لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ۔ چونکہ یہ قول بھی ہے اس لیے ہم نے اسے یہاں بیان کر دیا ورنہ اس کے بیان میں بھی چنداں نفع نہیں کیونکہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ بڑے بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں ۔ ان کی بہت سی فضیلتیں اور بزرگیاں احادیث میں موجود ہیں ۔ یہی تھے جو کافر شاعروں کی ہجو کے شعروں کا اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دیتے تھے ۔ انہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ { تم کفار کی مذمت بیان کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3213) سیدنا مسروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آئے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا ۔ حکم دیا کہ ان کیلئے گدی بچھا دو ، جب وہ واپس چلے گئے تو میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہا انہیں کیوں آنے دیتی ہیں ؟ ان کے آنے سے کیا فائدہ ؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ’ ان میں سے جو تہمت کا والی ہے اس کیلئے بڑا عذاب ہے ‘ تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” اندھا ہونے سے بڑا عذاب اور کیا ہوگا “ یہ نابینا ہوگئے تھے ، تو فرمایا ” شاید یہی عذاب عظیم ہو “ ۔ پھر فرمایا ” تمہیں نہیں خبر ؟ یہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے ہجو والے اشعار کا جواب دینے پر مقرر تھے “ ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی مدح میں شعر پڑھا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا پاکدامن ، بھولی ، تمام اوچھے کاموں سے ، غیبت اور برائی سے پرہیز کرنے والی ہیں ، تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” تم تو ایسے نہ تھے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4755) ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” مجھے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعروں سے زیادہ اچھے اشعار نظر نہیں آتے اور میں جب کبھی ان شعروں کو پڑھتی ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں ۔ وہ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کو خطاب کرکے اپنے شعروں میں فرماتے ہیں تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے ، جس کا میں جواب دیتا ہوں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے پاؤں گا ۔ میرے باپ دادا اور میری عزت آبرو سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے ، میں ان سب کو فنا کر کے بھی تمہاری بدزبانیوں کے مقابلے سے ہٹ نہیں سکتا ۔ تجھ جیسا شخص جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کف پا کی ہمسری بھی نہیں کر سکتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے ؟ یاد رکھو کہ تم جیسے بد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نیک پر فدا ہیں ۔ جب تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی ہے تو اب میری زبان سے جو تیز دھار اور بےعیب تلوار سے بھی تیز ہے ۔ بچ کر تم کہاں جاؤ گے ؟ ام المؤمنین سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لغو کلام نہیں ؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ہرگز نہیں لغو کلام تو شاعروں کی وہ بکواس ہے جو عورتوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی ہے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کیا قرآن میں نہیں کہ اس تہمت میں بڑا حصہ لینے والے کیلئے برا عذاب ہے ؟ فرمایا ” ہاں لیکن کیا جو عذاب انہیں ہوا بڑا نہیں ؟ آنکھیں ان کی جاتی رہیں ، تلوار ان پر اٹھی ، وہ تو کہئے سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ رک گئے ورنہ عجب نہیں کہ ان کی نسبت یہ بات سن کر انہیں قتل ہی کر ڈالتے “ ۔