الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زناکاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی ۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ ” یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے “ ۔ یہی قول مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبر ، ضحاک ، مکحول ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے ۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے “ جیسے اور آیت میں ہے «مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ» ۱؎ (4-النساء:25) یعنی ’ مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہیئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں ، وہ بدکار نہ ہوں ، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں ‘ ۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لیے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ ” نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے ۔ اسی طرح بھولی بھالی ، پاک دامن ، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا ، جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کر لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ ’ یہ مومنوں پر حرام کر دیا گیا ہے ‘ ۔ { ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کر لینے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/2:حسن) ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (مسند احمد:225/2:صحیح) ترمذی شریف میں ہے کہ { ایک صحابی جن کا نام سیدنا مرثد بن ابو مرثد رضی اللہ عنہ تھا ، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے ۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا ۔ سیدنا مرثد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا ، میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے عناق آ پہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے ؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں ۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا ۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے ۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آ گیا ہے ۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے ۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کر کے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جا چھپا ۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آ پہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا ۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا ۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں ، ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے ۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا ، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا ، چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے ، میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کر دیا ۔ } { اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا ، چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کر لوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3177،قال الشیخ الألبانی:حسن) امام ابوداؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2051،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد وغیرہ میں ہے { زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کر سکتا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2052،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند امام احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، { تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ [١] ماں باپ کا نافرمان ۔ [٢] وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں ۔ [٣] اور دیوث ۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ، [١] ماں باپ کا نافرمان [٢] ہمیشہ کا نشے کا عادی [٣] اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:134/2:حسن) مسند میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے [١] ہمیشہ کا شرابی ، [٢] ماں باپ کا نافرمان ۔ [٣] اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:29/2:صحیح بالشواہد) ابوداؤد طیالسی میں ہے { جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا } ۔ ۱؎ (مسند طیالسی:642:ضعیف) ابن ماجہ میں ہے { جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے ، اسے چاہیئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1862،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ دیوث کہتے ہیں بے غیرت شخص کو ۔ نسائی میں ہے کہ { ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { طلاق دیدے } ۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر جا اس سے فائدہ اٹھا } } ۔ (سنن نسائی:3231،قال الشیخ الألبانی:حسن) لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں ۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ تو اسے منکر کہتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بے حد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے «لَامِسٍ» کے لفظ کے «مُلْتَمِسٍ» کا لفظ ہونا چاہیئے تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے ۔ جس پر سخت وعید آئی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے ۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کر دے ۔ «وَاللہُ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالیٰ اَعْلَمُ» ۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کر لیں تو نکاح حلال ہے ۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا ، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو ، جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے “ ۔ حضرت یحییٰ رحمہ اللہ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت «وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَایِٕکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَاءَ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ» ۱؎ (24-النور:32) سے “ ۔ امام ابو ابوعبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔