أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ
کیا میری آیتیں تم پر پڑھی نہ جاتی تھیں، تو تم انھیں جھٹلایا کرتے تھے؟
مکمل آگاہی کے بعد بھی محروم ہدایت کافروں کو ان کے کفر اور گناہوں پر ایمان نہ لانے پر قیامت کے دن جو ڈانٹ ڈپٹ ہو گی ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ «رٰسُلًا مٰبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرٰسُلِ وَکَانَ اللہُ عَزِیزًا حَکِیمًا» ( 4-النساء : 165 ) ”میں نے تمہاری طرف رسول بھیجے تھے ، تم پر کتابیں نازل فرمائی تھیں ، تمہارے شک زائل کر دئیے تھے تمہاری کوئی حجت باقی نہیں رکھی تھی جیسے فرمان ہے کہ تاکہ لوگوں کا عذر رسولوں کے آنے کے بعد باقی نہ رہے“ ۔ اور فرمایا «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّیٰ نَبْعَثَ رَسُولًا» ( 17-الإسراء : 15 ) ”ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے“ ایک اور آیت میں ہے «تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ وَقَالُوا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِی أَصْحَابِ السَّعِیرِ فَاعْتَرَفُوا بِذَنبِہِمْ فَسُحْقًا لِّأَصْحَابِ السَّعِیرِ» ( 67-الملک : 8-11 ) ”جب جہنم میں کوئی جماعت جائے گی اس سے وہاں کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگاہ کرنے والے آئے نہ تھے“ ؟ اس وقت یہ حرماں نصیب لوگ اقرار کریں گے کہ بیشک تیری حجت پوری ہو گئی تھی لیکن ہم اپنی بدقسمتی اور سخت دلی کے باعث درست نہ ہوئے اپنی گمراہی پر اڑ گئے اور راہ راست پر نہ چلے ۔ اللہ اب تو ہمیں پھر دنیا کی طرف بھیج دے اگر اب ایسا کریں تو بیشک ہم ظالم ہیں اور مستحق سزا ہیں ، جیسے فرمان ہے «فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَہَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ذٰلِکُم بِأَنَّہُ إِذَا دُعِیَ اللہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَإِن یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا فَالْحُکْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیرِ» ( 40- غافر : 12 ، 11 ) ہمیں اپنی تقصیروں کا اقرار ہے کیا اب کسی طرح بھی چھٹکارے کی راہ مل سکتی ہے ؟ لیکن جواب دیا جائے گا کہ اب سب راہیں بند ہیں ۔ دار فنا ہو گیا ، اب دار جزا ہے ۔ توحید کے وقت شرک کیا ، اب پچھتانے سے کیا حاصل ؟