يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمھارے لیے زمین سے نکالی ہیں اور اس میں سے گندی چیز کا ارادہ نہ کرو، جسے تم خرچ کرتے ہو، حالانکہ تم اسے کسی صورت لینے والے نہیں، مگر یہ کہ اس کے بارے میں آنکھیں بند کرلو اور جان لو کہ بے شک اللہ بڑا بے پروا، بے حد خوبیوں والا ہے۔
خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں ، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو ۔ ردی ، واہیات ، سڑی گلی ، گری پڑی ، بے کار ، فضول اور خراب چیزیں راہِ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا ، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کر لے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا ، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ کر حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں ، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی ، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے ۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دِل اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے ، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے خوف نہ ہو جائیں ، لوگوں کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے ، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے ، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے ، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی ۔ (مسند احمد:387/1:ضعیف) پس دو قول ہوئے ۔ ایک تو رَدی چیزیں دوسرا حرام مال ۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لینا ہی اچھا معلوم ہوتا ہے ، سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے ، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھا لیتے ، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا ، جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:6138) کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے ۔ ہاں اگر شرم و لحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے ، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا ۔ (سنن ترمذی:2987،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا ، سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی ، مراد یہ ہے کہ بے کار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ (مسند احمد:105/6:ضعیف) سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بے قدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کر کے اسی کو لو گے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لو گے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر ، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبٰوْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 92 ) کے بھی ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا ۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے ، نہیں نہیں وہ تو بے نیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو ، یہ حکم صرف اس لیے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے ، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا «لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ» ( 22 ۔ الحج : 37 ) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت ، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے ۔ وہ کشادہ فضل والا ہے ، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو ، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں ، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں ، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا ۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے ۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دِل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دِل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ «اَعُوْذُ» پڑھے ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «لشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاءِ» ( البقرہ : 268 ) الخ ، (سنن ترمذی:2988 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) کی تلاوت فرمائی ۔ یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے موقوف بھی مروی ہے ، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دِل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہو جائیں گے ، اس نیک کام سے روک کر پھر بے حیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے ، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں ، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم ، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہو گا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہو سکتا ہے ؟ حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم مؤخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہو جائے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:576/5) پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں ، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو ، اللہ کا ڈر اس کے دِل میں ہو ، چنانچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے ، (بیہقی فی شعب الایمان:744:ضعیف) ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں ، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں ، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں ۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا ، سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے ، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا او کسی کو حاصل نہیں ، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں ، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں ، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کر لیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی ، وہ صاحب وحی نہیں ، (حاکم:552/1:ضعیف) لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابلِ رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی ۔ (صحیح بخاری:73:صحیح) وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے ، سمجھ رکھتا ہو ، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے ۔