وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ
اور اللہ کے بارے میں جہاد کرو جیسا اس کے جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمھیں چنا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، اپنے باپ ابراہیم کی ملت کے مطابق۔ اسی نے تمھارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے اور اس (کتاب) میں بھی، تاکہ رسول تم پر شہادت دینے والابنے اور تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو۔ سو نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑو، وہی تمھارا مالک ہے، سو اچھا مالک ہے اور اچھا مددگار ہے۔
امت مسلمہ کو سابقہ امتوں پر فضیلت ’ اپنے مال ، جان اور اپنی زبان سے راہ اللہ میں جہاد کرو اور حق جہاد ادا کرو ‘ ۔ جیسے حکم دیا ہے کہ «اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ» ۱؎ (3-آل عمران:102) ’ اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے ‘ ، اسی نے تمہیں برگزیدہ اور پسندیدہ کر لیا ہے ۔ اور امتوں پر تمہیں شرافت وکرامت عزت وبزرگی عطا فرمائی ۔ کامل رسول اور کامل شریعت سے تمہیں سربرآوردہ کیا ، تمہیں آسان ، سہل اور عمدہ دین دیا ۔ وہ احکام تم پر نہ رکھے وہ سختی تم پر نہ کی وہ بوجھ تم پر نہ ڈالے جو تمہارے بس کے نہ ہوں جو تم پر گراں گزریں ۔ جنہیں تم بجا نہ لاسکو ۔ اسلام کے بعد سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ تاکید والا ، رکن نماز ہے ۔ اسے دیکھئیے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوں تو چار رکعت فرض اور پھر اگر سفر ہو تو وہ بھی دو ہی رہ جائیں ۔ اور خوف میں تو حدیث کے مطابق صرف ایک ہی رکعت وہ بھی سواری پر ہو تو اور پیدل ہو تو ، روبہ قلبہ ہو تو اور دوسری طرف توجہ ہو تو ، اسی طرح یہی حکم سفر کی نفل نماز کا ہے کہ جس طرف سواری کا منہ ہو پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر نماز کا قیام بھی بوجہ بیماری کے ساقط ہو جاتا ہے ۔ مریض بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ، اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹے لیٹے ادا کر لے ۔ اسی طرح اور فرائض اور واجبات کو دیکھو کہ کس قدر ان میں اللہ تعالیٰ نے آسانیاں رکھی ہیں ۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { میں یک طرفہ اور بالکل آسانی والا دین دے کر بھیجا گیا ہوں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:266/5:اسنادہ ضعیف) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم کو یمن کا امیر بنا کر بھیجا تو فرمایا تھا { تو خوشخبری سنانا ، نفرت نہ دلانا ، آسانی کرنا ، سختی نہ کرنا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3038) اور بھی اس مضمون کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ ’ تمہارے دین میں کوئی تنگی و سختی نہیں ‘ ۔ ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں «مِلَّۃ» کا نصب بہ نزع خفض ہے گویا اصل میں [ «کَمِلَّۃِ أَبِیکُمْ» ] تھا ۔ اور ہوسکتا ہے کہ «الْزَمُوا» کو محذوف مانا جائے اور «مِّلَّۃَ» کو اس کا مفعول قرار دیا جائے ۔ اس صورت میں یہ اسی آیت کی طرح ہو جائے گا «دِینًا قِیَمًا» الخ ، ’ اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ، ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ۔ کیونکہ ان کی دعا تھی کہ ” ہم دونوں باپ بیٹوں کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو مسلمان بنا دے “ ۔ لیکن امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ قول کچھ جچتا نہیں کہ پہلے سے مراد ابراہیم علیہ السلام کے پہلے سے ہو اس لیے کہ یہ تو ظاہر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اس امت کا نام اس قرآن میں مسلم نہیں رکھا ۔ ” پہلے سے“ کے لفظ کے معنی یہ ہیں کہ پہلی کتابوں میں ذکر میں اور اس پاک اور آخری کتاب میں ۔ یہی قول مجاہد رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کا ہے اور یہی درست ہے ۔ کیونکہ اس سے پہلے اس امت کی بزرگی اور فضیلت کا بیان ہے ان کے دین کے آسان ہونے کا ذکر ہے ۔ پھر انہیں دین کی مزید رغبت دلانے کے لیے بتایا جا رہا ہے کہ ’ یہ دین وہ ہے جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام لے کر آئے تھے ‘ ، پھر اس امت کی بزرگی کے لیے اور انہیں مائل کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ’ تمہارا ذکر میری سابقہ کتابوں میں بھی ہے ۔ مدتوں سے انبیاء کی آسمانی کتابوں میں تمہارے چرچے چلے آ رہے ہیں ۔ سابقہ کتابوں کے پڑھنے والے تم سے خوب آگاہ ہیں پس اس قرآن سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم ہے اور خود اللہ کا رکھا ہوا ہے ‘ ۔ نسائی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { جو شخص جاہلیت کے دعوے اب بھی کرے [ یعنی باپ دادوں پر حسب نسب پر فخر کرے دوسرے مسلمانوں کو کمینہ اور ہلکا خیال کرے ] وہ جہنم کا ایندھن ہے } ۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ روزے رکھتا ہو ؟ اور نمازیں بھی پڑھتا ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { ہاں ہاں اگرچہ وہ روزے دار اور نمازی ہو } ۔ یعنی مسلمین ، مومنین اور عباد اللہ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2873،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سورۃ البقرہ کی آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:21) کی تفسیر میں ہم اس حدیث کو بیان کر چکے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تمہیں عادل عمدہ بہتر امت اسلئے بنایا ہے اور اس لیے تمام امتوں میں تمہاری عدالت کی شہرت کر دی ہے کہ تم قیامت کے دن اور لوگوں پر شہادت دو ‘ ۔ تمام اگلی امتیں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار کریں گی ۔ کہ اس امت کو اور تمام امتوں پر سرداری حاصل ہے اس لیے ان کی گواہی اس پر معتبر مانی جائے گی ۔ اس بارے میں کہ اس کے رسولوں نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچایا ہے ، وہ تبلیغ کا فرض ادا کر چکے ہیں اور خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شہادت دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کر دیا ۔ اس بابت جتنی حدیثیں ہیں اور اس بارے کی جتنی تفسیر ہے وہ ہم سب کی سب سورۃ البقرہ کے سترھویں رکوع کی آیت «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا» ۱؎ (2-البقرۃ:143) کی تفسیر میں لکھ آئے ہیں ۔ اس لیے یہاں اسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں وہیں دیکھ لی جائے ۔ وہیں نوح علیہ السلام اور ان کی امت کا واقعہ بھی بیان کر دیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ اتنی بڑی عظیم الشان نعمت کا شکریہ تمہیں ضرور ادا کرنا چاہیئے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اللہ کے فرائض تم پر ہیں انہیں شوق خوشی سے بجا لاؤ خصوصاً نماز اور زکوٰۃ کا پورا خیال رکھو ۔ جو کچھ اللہ نے واجب کیا ہے اسے دلی محبت سے بجالاؤ اور جو چیزیں حرام کر دیں ہیں اس کے پاس بھی نہ پھٹکو ‘ ۔ پس نماز جو خالص رب کی ہے اور زکوٰۃ جس میں رب کی عبادت کے علاوہ مخلوق کے ساتھ احسان بھی ہے کہ امیر لوگ اپنے مال کا ایک حصہ فقیروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں ، ان کا کام چلتا ہے دل خوش ہو جاتا ہے ۔ اس میں بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے بہت آسانی ہے حصہ کم بھی ہے اور سال بھر میں ایک ہی مرتبہ ۔ زکوٰۃ کے کل احکام سورۃ التوبہ کی آیت زکوٰ «اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ» ۱؎ (9-التوبہ:60) کی تفسیر میں ہم نے بیان کر دئے ہیں وہیں دیکھ لیے جائیں ۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ ’ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو ، اسی پر توکل کرو ، اپنے تمام کاموں میں اس کی امداد طلب کیا کرو ، ہر وقت اعتماد اس پر رکھو ، اسی کی تائید پر نظریں رکھو ۔ وہ تمہارا مولیٰ ہے ، تمہارا حافظ ہے ناصر ہے ، تمہیں تمہارے دشمنوں پر کامیابی عطا فرمانے والا ہے ، وہ جس کا ولی بن گیا اسے کسی اور کی ولایت کی ضرورت نہیں ، سب سے بہتر والی وہی ہے سب سے بہتر مددگار وہی ہے ، تمام دنیا گو دشمن ہو جائے لیکن وہ سب قادر ہے اور سب سے زیادہ قوی ہے ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں وہیب بن ورد سے مروی ہے کہ ” اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے ’ اے ابن آدم اپنے غصے کے وقت تو مجھے یاد کر لیا کر ۔ میں بھی اپنے غضب کے وقت تجھے معافی فرما دیا کروں گا ، اور جن پر میرا عذاب نازل ہو گا میں تجھے ان میں سے بچا لونگا ۔ برباد ہونے والوں کے ساتھ تجھے برباد نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم جب تجھ پر ظلم کیا جائے تو صبروضبط سے کام لے ، مجھ پر نگاہیں رکھ ، میری مدد پر بھروسہ رکھ میری امداد پر راضی رہ ، یاد رکھ میں تیری مدد کروں یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تو آپ اپنی مدد کرے ‘ ۔ [ اللہ تعالیٰ ہمیں بھلائیوں کی توفیق دے اپنی امداد نصیب فرمائے آمین ] «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔