اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ
اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
منصب نبوت کا حقدار کون؟ اپنی مقرر کردہ تقدیر کے جاری کرنے اور اپنی مقرر کردہ شریعت کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ جس فرشتے کو چاہتا ہے ، مقرر کر لیتا ہے اسی طرح لوگوں میں سے بھی پیغمبری کی خلعت سے جسے چاہتا ہے نوازتا ہے ۔ بندوں کے سب اقوال سنتا ہے ایک ایک بندہ اور اس کے اعمال اس کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ منصب نبوت کا مستحق کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت «اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ رب ہی کو علم ہے کہ منصب رسالت کا صحیح طور اہل کون ہے ؟ رسولوں کے آگے پیچھے کا اللہ کو علم ہے ، کیا اس تک پہنچا ، کیا اس نے پہنچایا ، سب اس پر ظاہر و باہر ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَیٰ غَیْبِہِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّہُ یَسْلُکُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا لِّیَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَأَحْصَیٰ کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا» ۱؎ (72-الجن:28-26) ، یعنی ’ وہ غیب کا جاننے والا ہے اپنے غیب کا کسی پر اظہار نہیں کرتا ۔ ہاں جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے اس کے آگے پیچھے پہرے مقرر کر دیتا ہے ، تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچادئے اور اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کا احاطہٰ کئے ہوئے ہے جو ان کے پاس ہے اور ہر چیز کی گنتی تک اس کے پاس شمار ہو چکی ہے ‘ ۔ پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے رسولوں کا نگہبان ہے جو انہیں کہا سنا جاتا ہے اس پر خود گواہ ہے خود ہی ان کا حافظ ہے اور ان کا مددگار بھی ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت « یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) ، ’ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تیرے پاس تیرے رب کے طرف سے اترا ہے ، پہنچا دے اگر ایسا نہ کیا تو حق رسالت ادا نہ ہو گا تیرا بچاؤ اللہ کے ذمے ہے ‘ ، الخ ۔