ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ
پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس قدیم گھر کا خوب طواف کریں۔
احکام حج پھر وہ احرام کھول ڈالے سر منڈوالیں کپڑے پہن لیں ، ناخن کٹوا ڈالیں ، وغیرہ احکام حج پورے کر لیں ۔ نذریں پوری کر لیں حج کی قربانی کی اور جو ہو ۔ پس جو شخص حج کے لیے نکلا اس کے ذمے طواف بیت اللہ ، طواف صفا مروہ ، عرفات کے میدان میں جانا ، مزدلفے کی حاضری ، شیطانوں کو کنکر مارنا وغیرہ سب کچھ لازم ہے ۔ ان تمام احکام کو پورے کریں اور صحیح طور پر بجا لائیں اور بیت اللہ شریف کا طواف کریں جو یوم النحر کو واجب ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { حج کا آخری کام طواف ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ذی الحجہ کو منٰی کی طرف واپس آئے تو سب سے پہلے شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں ۔ پھر قربانی کی ، پھر سر منڈوایا ، پھر لوٹ کر بیت اللہ آ کر طواف بیت اللہ کیا } ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ { لوگوں کو حکم کیا گیا ہے کہ ان کا آخری کام طواف بیت اللہ ہو ۔ ہاں البتہ حائضہ عورتوں کو رعایت کر دی گئی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1755) بیت العتیق کے لفظ سے استدلال کر کے فرمایا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کو حطیم بھی اپنے طواف کے اندر لے لینا چاہے ۔ اس لیے کہ وہ بھی اصل بیت اللہ شریف میں سے ہے ابراہیم علیہ السلام کی بنا میں یہ داخل تھا گو قریش نے نیا بناتے وقت اسے باہر چھوڑ دیا لیکن اس کی وجہ بھی خرچ کی کمی تھی نہ کہ اور کچھ ۔ { اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا اور فرمایا بھی دیا کہ { حطیم بیت اللہ شریف میں داخل ہے } ۔ اور آپ نے دونوں شامی رکنوں کو ہاتھ نہیں لگایا نہ بوسہ دیا کیونکہ وہ بناء ابراہیمی کے مطابق پورے نہیں ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے پیچھے سے طواف کیا } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:41/6:) پہلے اس طرح کی عمارت تھی کہ یہ اندر تھا اسی لیے اسے پرانا گھر کہا گیا یہی سب سے پہلا اللہ کا گھر ہے اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ طوفان نوح میں سلامت رہا ۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ کوئی سرکش اس پر غالب نہیں آسکا ۔ یہ ان سب کی دست برد سے آزاد ہے جس نے بھی اس سے برا قصد کیا وہ تباہ ہوا ۔ اللہ نے اسے سرکشوں کے تسلط سے آزاد کر لیا ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3170،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں اسی طرح کی ایک مرفوع حدیث بھی ہے جو حسن غریب ہے اور ایک اور سند سے مرسلاً بھی مروی ہے ۔