سورة الحج - آیت 11

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آپہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھر جاتا ہے۔ اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شک کے مارے لوگ «حَرْفٍ» کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں ۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے ، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صحیح بخاری شریف میں [ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ] سے مروی ہے کہ { اعراب ہجرت کر کے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4742) ابن حاتم میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اعراب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جا کر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے ، جانوروں میں ، گھربار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے تو جھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ، اس پر یہ آیت اتری “ ۔ بروایت عوفی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ” ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہو جاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا ، مصیبت آ گئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی ، گھر میں لڑکی پیدا ہو گئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آ جاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے “ ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” یہ حالت منافقوں کی ہے ، دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آ گیا فوراً پلہ جھاڑلیا کرتے ہیں ، مرتد کافر ہو جاتے ہیں “ ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کر لیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں ، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں ، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں ، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے ۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہو جاتا ہے ۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے ؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے ۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔