سورة الحج - آیت 8

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں بغیر کسی علم کے اور بغیر کسی ہدایت کے اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

گمراہ جاہل مقلد لوگ چونکہ اوپر کی آیتوں میں گمراہ جاہل مقلدوں کا حال بیان فرمایا تھا یہاں ان کے مرشدوں اور پیروں کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ ’ وہ بےعقلی اور بے دلیلی سے صرف رائے قیاس اور خواہش نفسانی سے اللہ کے بارے میں کلام کرتے رہتے ہیں ، حق سے اعراض کرتے ہیں ، تکبر سے گردن پھیرلیتے ہیں ، حق کو قبول کرنے سے بےپراوہی کے ساتھ انکار کرجاتے ہیں جیسے فرعونیوں نے موسیٰ علیہ السلام کے کھلے معجزوں کو دیکھ کر بھی بےپراوہی کی اور نہ مانے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلَیٰ مَا أَنزَلَ اللہُ وَإِلَی الرَّسُولِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدٰونَ عَنکَ صُدُودًا» ۱؎ (4-النساء:61) ’ جب ان سے اللہ کی وحی کی تابعداری کو کہا جاتا ہے اور رسول اللہ کے فرمان کی طرف بلایا جاتا ہے تو تو دیکھے گا کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ منافق تجھ سے دور چلے جایا کرتے ہیں ‘ ۔ سورۃ المنافقون میں ارشاد ہوا کہ «وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوسَہُمْ وَرَأَیْتَہُمْ یَصُدٰونَ وَہُم مٰسْتَکْبِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:5) ’ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور اپنے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرواؤ تو وہ اپنے سرگھما کر گھمنڈ میں آ کر بے نیاز ی سے انکار کرجاتے ہیں ‘ ۔ لقمان رحمہ اللہ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا آیت «وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ للنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبٰ کُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ» ۱؎ (31-لقمان:18) ’ لوگوں سے اپنے رخسار نہ پھلادیا کر یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر ان سے تکبر نہ کر ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِ آیَاتُنَا وَلَّیٰ مُسْتَکْبِرًا کَأَن لَّمْ یَسْمَعْہَا کَأَنَّ فِی أُذُنَیْہِ وَقْرًا فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ» ۱؎ (31-لقمان:7) ’ ہماری آیتیں سن کر یہ تکبر سے منہ پھیرلیتا ہے ‘ ۔ «لِیُضِلَّ» کا لام یہ تو لام عاقبت ہے یا لام تعلیل ہے اس لیے کہ بسا اوقات اس کا مقصود دوسروں کو گمراہ کرنا نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد معاند اور انکار ہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ ہم نے اسے ایسا بداخلاق اس لیے بنا دیا ہے کہ یہ گمراہوں کا سردار بن جائے ۔ اس کے لیے دنیا میں بھی ذلت وخواری ہے جو اس کے تکبر کا بدلہ ۔ یہ یہاں تکبر کر کے بڑا بننا چاہتا تھا ہم اسے اور چھوٹا کر دیں گے یہاں بھی اپنی چاہت میں ناکام اور بے مراد رہے گا ۔ اور آخرت کے دن بھی جہنم کی آگ کا لقمہ ہو گا ۔ اسے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے کا کہ ’ یہ تیرے اعمال کا نتیجہ ہے اللہ کی ذات ظلم سے پاک ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «خُذُوہُ فَاعْتِلُوہُ إِلَیٰ سَوَاءِ الْجَحِیمِ ثُمَّ صُبٰوا فَوْقَ رَ‌أْسِہِ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیمِ ذُقْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْکَرِ‌یمُ إِنَّ ہٰذَا مَا کُنتُم بِہِ تَمْتَرُ‌ونَ» (44-الدخان:47-50) ’ فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اسے پکڑ لو اور گھسیٹ کر جہنم میں لے جاؤ اور اس کے سر پر آگ جیسے پانی کی دھار بہاؤ ۔ لے اب اپنی عزت اور تکبر کا بدلہ لیتا جا ۔ یہی وہ ہے جس سے عمربھر شک شبہ میں رہا ‘ ۔ حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ { ایک دن میں وہ ستر ستر مرتبہ آگ میں جل کر بھرتا ہو جائے گا ۔ پھر زندہ کیا جائے گا پھر جلایا جائے گا } ۔ ۱؎ (ابن ابی حاتم) «اعاذنا اللہ» ۔