يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
اے لوگو! اگر تم اٹھائے جانے کے بارے میں کسی شک میں ہو تو بے شک ہم نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر کچھ جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی، تاکہ ہم تمھارے لیے واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کرلیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔ اور تو زمین کو مردہ پڑی ہوئی دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے اور ہر خوبصورت قسم میں سے اگاتی ہے۔
پہلی پیدائش دوسری پیدائش کی دلیل مخالفین اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل بیان کی جاتی ہے کہ ’ اگر تمہیں دوسری بار کی زندگی سے انکار ہے تو ہم اس کی دلیل میں تمہاری پہلی دفعہ کی پیدائش تمہیں یاد دلاتے ہیں ‘ ۔ تم اپنی اصلیت پر غور کر کے دیکھو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے بنایا ہے یعنی تمہارے باپ آدم علیہ السلام کو جن کی نسل تم سب ہو ۔ پھر تم سب کو ذلیل پانی کے قطروں سے پیدا کیا ہے جس نے پہلے خون بستہ کی شکل اختیار کی پھر گوشت کا ایک لوتھڑا بنا ۔ چالیس دن تک تو نطفہ اپنی شکل میں بڑھتا ہے پھر بحکم الٰہی اس میں خون کی سرخ پھٹکی پڑتی ہے ، پھر چالیس دن کے بعد وہ ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں کوئی صورت و شبیہ نہیں ہوتی ، پھر اللہ تعالیٰ اسے صورت عنایت فرماتا ہے سر ، ہاتھ ، سینہ ، پیٹ ، رانیں ، پاؤں اور کل اعضاء بنتے ہیں ۔ کبھی اس سے پہلے ہی حمل ساقط ہو جاتا ہے ، کبھی اس کے بعد بچہ گر پڑتا ہے ۔ یہ تو تمہارے مشاہدے کی بات ہے ۔ اور کبھی ٹھہرجاتا ہے ۔ جب اس لوتھڑے پر چالیس دن گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسے ٹھیک ٹھاک اور درست کرکے اس میں روح پھونک دیتا ہے اور جیسے اللہ چاہتا ہو خوبصورت بدصورت مرد عورت بنا دیا جاتا ہے رزق ، اجل ، نیکی ، بدی اسی وقت لکھ دی جاتی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس رات تک جمع ہوتی ہے ۔ پھر چالیس دن تک خون بستہ کی صورت رہتی ہے ، پھر چالیس دن تک گوشت کے لوتھڑے کی ، پھر فرشتے کو چار چیزیں لکھ دینے کا حکم دے کر بھیجا جاتا ہے ۔ رزق ، عمل ، اجل ، شقی یا سعید ہونا لکھ لیا جاتا ہے پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3208) عبداللہ فرماتے ہیں نطفے کے رحم میں ٹھہرتے ہی فرشتہ پوچھتا ہے کہ ” اے اللہ یہ مخلوق ہو گا یا نہیں ؟ “ اگر انکار ہوا تو وہ جمتا ہی نہیں ۔ خون کی شکل میں رحم اسے خارج کر دیتا ہے اور اگر حکم ملا کہ اس کی پیدائش کی جائے گی تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی ؟ نیک ہو گا یا بد ؟ اجل کیا ہے ؟ اثر کیا ہے ؟ کہاں مرے گا ؟ پھر نطفے سے پوچھا جاتا ہے تیرے رب کون ہے وہ کہتا ہے اللہ ! ، پوچھا جاتا ہے رازق کون ہے ؟ کہتا ہے کہ اللہ ! ۔ پھر فرشتے سے کہا جاتا ہے تو جا اور اصل کتاب میں دیکھ لے وہیں اس کا حال مل جائے گا پھر وہ پیدا کیا جاتا ہے لکھی ہوئی زندگی گزارتا ہے مقدر کا رزق پاتا ہے مقررہ جگہ چلتا پھرتا ہے پھر موت آتی ہے اور دفن کیا جاتا ہے جہاں دفن ہونا مقدر ہے ۔ پھر عامر رحمتہ اللہ علیہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی مضغہ ہونے کے بعد چوتھی پیدائش کی طرف لوٹایا جاتا ہے اور ذی روح بنتا ہے ۔ حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے کہ { چالیس پینتالیس دن جب نطفے پر گزر جاتے ہیں تو فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ یہ دوزخی ہے یا جنتی ؟ جو جواب دیا جاتا ہے لکھ لیتا ہے پھر پوچھتا ہے لڑکا ہے یا لڑکی ؟ جو جواب ملتا ہے لکھ لیتا ہے پھر عمل اور اثر اور رزق اور اجل لکھی جاتی ہے اور صحیفہ لپیٹ لیا جاتا ہے جس میں نہ کمی ممکن ہے نہ زیادتی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2643) پھر بچہ ہو کردنیا میں تولد ہوتا ہے نہ عقل ہے نہ سمجھ ۔ کمزور ہے اور تمام اعضاء ضعیف ہیں پھر اللہ تعالیٰ بڑھاتا رہتا ہے ماں باپ کو مہربان کر دیتا ہے ۔ دن رات انہیں اس کی فکر رہتی ہے تکلیفیں اٹھا کر پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پروان چڑھاتا ہے ۔ یہاں تک کہ عنفوان جوانی کا زمانہ آتا ہے خوبصورت تنومند ہو جاتا ہے بعض تو جوانی میں ہی چل بستے ہیں بعض بوڑھے پھونس ہو جاتے ہیں کہ پھر عقل وخرد کھوبیٹھتے ہیں اور بچوں کی طرح ضعیف ہو جاتے ہیں ۔ حافظہ ، فہم ، فکر سب میں فتور پڑ جاتا ہے علم کے بعد بےعلم ہو جاتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ﮨـعْفًا وَّشَیْبَۃً یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ» ۱؎ (30-الروم:54) ’ اللہ نے تمہیں کمزوری میں پیدا کیا پھر زور دیا پھر اس قوت وطاقت کے بعد ضعف اور بڑھاپا آیا جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے پورے علم والا اور کامل قدرت والا ہے ‘ ۔ مسند حافظ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { بچہ جب تک بلوغت کو نہ پہنچے اس کی نیکیاں اس کے باپ کے یا ماں باپ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں اور برائی نہ اس پر ہوتی ہے نہ ان پر ۔ بلوغت پر پہنچتے ہی قلم اس پر چلنے لگتا ہے اس کے ساتھ کے فرشتوں کو اس کی حفاظت کرنے اور اسے درست رکھنے کا حکم مل جاتا ہے ۔ جب وہ اسلام میں ہی چالیس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تین بلاؤں سے نجات دے دیتا ہے جنون اور جذام سے اور برص سے ، جب اسے اللہ تعالیٰ کے دین پر بچاس سال گزرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے جب وہ ساٹھ سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی کے کاموں کی طرف اس کی طبعیت کا پورا میلان کر دیتا ہے اور اسے اپنی طرف راغب کر دیتا ہے جب وہ ستر برس کا ہو جاتا ہے تو آسمانی فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب وہ اسی برس کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں تو لکھتا ہے لیکن برائیوں سے تجاوز فرما لیتا ہے ۔ جب وہ نوے برس کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے اس کے گھرانے والوں کے لیے اسے سفارشی اور شفیع بنا دیتا ہے وہ اللہ کے ہاں امین اللہ کا خطاب پاتا ہے اور زمین میں اللہ کے قیدیوں کی طرح رہتا ہے جب بہت بڑی ناکارہ عمر کو پہنچ جاتا ہے جب کہ علم کے بعد بے علم ہو جاتا ہے تو جو کچھ وہ اپنی صحت اور ہوش کے زمانے میں نیکیاں کیا کرتا تھا سب اس کے نامہ اعمال میں برابر لکھی جاتی ہیں اور اگر کوئی برائی اس سے ہو گئی تو وہ نہیں لکھی جاتی } } ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:3678:ضعیف) یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے باوجود اس کے اسے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ اپنی مسند میں لائے ہیں موقوفاً بھی اور مرفوعاً بھی ۔ انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے اور عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے از فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ۱؎ (مسند احمد:89/2:ضعیف) پھر انس رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری سند سے مرفوعاً یہی وارد کی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:217/3:ضعیف) حافظ ابوبکر بن بزار رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسے بہ روایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مرفوع میں بیان کیا ہے ۔ ۱؎ (مسند بزار:3587:ضعیف) [ اور مسلمانوں پر رب کی مہربانی کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ اللہ ہماری عمر میں نیکی کے ساتھ برکت دے آمین] مردوں کے زندہ کر دینے کی ایک دلیل یہ بیان کر کے پھر دوسری دلیل بیان فرماتا ہے کہ ’ چٹیل میدان بے روئیدگی کی خشک اور سخت زمین کو ہم آسمانی پانی سے لہلہاتی اور تروتازہ کر دیتے ہیں طرح طرح کے پھل پھول میوے دانے وغیرہ کے درختوں سے سرسبز ہو جاتی ہے قسم قسم کے درخت اگ آتے ہیں اور جہاں کچھ نہ تھا وہاں سب کچھ ہو جاتا ہے مردہ زمین ایک دم زندگی کے کشادہ سانس لینے لگتی ہے جس جگہ ڈرلگتا تھا وہاں اب راحت روح اور نورعین اور سرور قلب موجود ہو جاتا ہے قسم قسم کے طرح طرح کے میٹھے کھٹے خوش ذائقہ مزیدار رنگ روپ والے پھل اور میوؤں سے لدے ہوئے خوبصورت چھوٹے بڑے جھوم جھوم کر بہار کا لطف دکھانے لگتے ہیں ‘ ۔ یہی وہ مردہ زمین ہے جو کل تک خاک اڑا رہی تھی آج دل کا سرور اور آنکھوں کا نور بن کر اپنی زندگی کی جوانی کامزا دی رہی ہے ۔ پھولوں کے چھوٹے چھوٹے پودے دماغ کو مخزن عطار بنا دیتے ہیں دور سے نسیم کے ہلکے ہلکے جھونکے کتنے خوشگوار معلوم ہوتے ہیں ۔ سچ ہے خالق ، مدبر ، اپنی چاہت کے مطابق کرنے والا ، خود مختیار حاکم حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور اس کی نشانی مردہ زمین کا زندہ ہونا مخلوق کی نگاہوں کے سامنے ہے ۔ وہ ہر انقلاب پر ہر قلب ماہیت پر قادر ہے جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ۔ جس کام کا ارادہ کرتا ہے ، فرماتا ہے ہو جا ، پھر ناممکن ہے کہ وہ کہتے ہی ہو نہ جائے جیسے کہ آیت میں ہے «إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَن یَقُولَ لَہُ کُن فَیَکُونُ» ۱؎ (36-یس:82) ۔ یاد رکھو قیامت قطعا بلا شک و شبہ آنے والی ہی ہے اور قبروں کے مردوں کو وہ قدرت والا اللہ زندہ کر کے اٹھانے والا ہے وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر تھا اور ہے اور رہے گا ۔ سورۃ یاسین میں بھی بعض لوگوں کے اس اعتراض کا ذکر کر کے انہیں ان کی پہلی پیدائش یاد دلا کر قائل کیا گیا ہے ساتھ ہی سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کی قلب ماہیت کو بھی دلیل میں پیش فرمایا گیا ہے اور آیتیں بھی اس بارے میں بہت سی ہیں ۔ سیدنا لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ جو ابورزین عقیلی کی کنیت سے مشہور ہیں { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم لوگ سب کے سب قیامت کے دن اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو دیکھیں گے ؟ اور اس کی مخلوق میں اس دیکھنے کی مثال کوئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کیا تم سب کے سب چاند کو یکساں طور پر نہیں دیکھتے ؟ } ہم نے کہا ” ہاں “ فرمایا { پھر اللہ تو بہت بڑی عظمت والا ہے } ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی بھی کوئی مثال دنیا میں ہے ؟ جواب ملا کہ { کیا ان جنگلوں سے تم نہیں گزرے جو غیر آباد ویران پڑے ہوں خاک اڑ رہی ہو خشک مردہ ہو رہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہی ٹکڑا سبزے سے اور قسم قسم کے درختوں سے ہرا بھرا نوپید ہو جاتا ہے بارونق بن جاتا ہے اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور مخلوق میں یہی دیکھی ہوئی مثال اس کا کافی نمونہ اور ثبوت ہے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4731،قال الشیخ الألبانی:حسن) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جو اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ تعالیٰ حق ہے اور قیامت قطعا بے شبہ آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے گا وہ یقیناً جنتی ہے “ ۔