وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور مچھلی والے کو، جب وہ غصے سے بھرا ہوا چلا گیا، پس اس نے سمجھا کہ ہم اس پر گرفت تنگ نہ کریں گے تو اس نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں ظلم کرنے والوں سے ہوگیا ہوں۔
یونس علیہ السلام اور ان کی امت یہ واقعہ یہاں بھی مذکور ہے اور سورۃ الصافات میں بھی ہے اور سورۃ نون میں بھی ہے ۔ ۱؎ (37-الصافات:139-148) ۱؎ (68-القلم:48-50) یہ پیغمبر یونس بن متی علیہ السلام تھے ۔ انہیں موصل کے علاقے کی بستی نینوا کی طرف نبی بنا کر اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا ۔ آپ علیہ السلام نے اللہ کی راہ کی دعوت دی لیکن قوم ایمان نہ لائی ۔ آپ علیہ السلام وہاں سے ناراض ہو کرچل دئے اور ان لوگوں سے کہنے لگے کہ ” تین دن میں تم پر عذاب الٰہی آ جائے گا “ ۔ جب انہیں اس بات کی تحقیق ہوگئی اور انہوں نے جان لیا کہ انبیاء علیہم السلام جھوٹے نہیں ہوتے تو یہ سب کے سب چھوٹے بڑے مع اپنے جانوروں اور مویشوں کے جنگل میں نکل کھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے جدا کردیا اور بلک بلک کر نہایت گریہ وزاری سے جناب باری تعالیٰ میں فریاد شروع کر دی ۔ ادھر ان کی آہ وبکاء ادھر جانوروں کی بھیانک صدا غرض اللہ کی رحمت متوجہ ہوگئی عذاب اٹھا لیا گیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت « فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ» ۱؎ (10-یونس:98) یعنی ’ عذابوں کی تحقیق کے بعد کے ایمان نے کسی کو نفع نہیں دیا سوائے قوم یونس کے کہ ان کے ایمان کی وجہ سے ہم نے ان پر سے عذاب ہٹالیے اور دنیا کی رسوائی سے انہیں بچا لیا اور موت تک کی مہلت دے دی ‘ ۔ حضرت یونس علیہ السلام یہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکر طوفان کے آثار نمودار ہوئے ۔ قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چاہے کہ وزن کم ہو جائے ۔ قرعہ یونس علیہ السلام کا نکلا لیکن کسی نے آپ علیہ السلام کو دریا میں ڈالنا پسند نہ کیا ۔ دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ علیہ السلام ہی کا نام نکلا تیسری مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ علیہ السلام ہی کا نام نکلا ۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے آیت «فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ» ۱؎ (37-الصافات:141) اب کہ یونس علیہ السلام خود کھڑے ہو گئے کپڑے اتار کر دریا میں کود پڑے ۔ بحر اخضر سے بحکم الٰہی ایک مچھلی پانی کاٹتی ہوئی آئی اور آپ علیہ السلام کو لقمہ کرگئی ۔ لیکن بحکم اللہ نے آپ علیہ السلام کی ہڈی توڑی نہ جسم کو کچھ نقصان پہچایا ۔ آپ علیہ السلام اس کے لیے غذا نہ تھے بلکہ اس کا پیٹ آپ علیہ السلام کے لیے قید خانہ تھا ۔ اسی وجہ سے آپ علیہ السلام کی نسبت مچھلی کی طرف کی گئی عربی میں مچھلی کو نون کہتے ہیں ۔ آپ علیہ السلام کا غضب وغصہ آپ کی قوم پر تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:511/18:) خیال یہ تھا کہ اللہ آپ کو تنگ نہ پکڑے گا پس یہاں «نَقُدِرَ» کے یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ، مجاہدرحمہ اللہ ، ضحاک رحمہ اللہ وغیرہ نے کئے ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:514/18:) امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اس کی تائید آیت «وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللہُ لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہَا سَیَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْرًا» ۱؎ (65-الطلاق:7) سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عطیہ عوفی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ معنی کئے ہیں کہ ” ہم اس پر مقدر نہ کریں گے “ ۔ «قَدَرَ» اور «قَدَّرَ» دونوں لفظ ایک معنی میں بولے جاتے ہیں اس کی سند میں عربی کے شعر کے علاوہ آیت «فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلٰٓی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ» ۱؎ (54-القمر:12) بھی پیش کی جا سکتی ہے ۔ ان اندھیریوں میں پھنس کر اب یونس علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا ۔ سمندر کے نیچے کا اندھیرا پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا پھر رات کا اندھیرا یہ اندھیرے سب جمع تھے ۔ ۱؎ (تفسیر قرطبی:333/11:) آپ علیہ السلام نے سمندر کی تہہ کی کنکریوں کی تسبیح سنی اور خود بھی تسبیح کرنی شروع کی ۔ آپ علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں جا کر پہلے تو سمجھے کہ میں مرگیا پھر پیر کو ہلایا تو یقین ہوا کہ میں زندہ ہوں ۔ وہیں سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ” بارالٰہی میں نے تیرے لیے اس جگہ کو مسجد بنایا جسے اس سے پہلے کسی نے جائے سجود نہ بنایا ہوگا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:518/18:) حسن بصری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں ” چالیس دن آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے “ ۔ ابن جریر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب اللہ تعالیٰ نے یونس علیہ السلام کے قید کا ارادہ کیا تو مچھلی کو حکم دیا کہ آپ علیہ السلام کو نگل لے لیکن اس طرح کے نہ ہڈی ٹوٹے نہ جسم پر خراش آئے ۔ جب آپ علیہ السلام سمندر کی تہہ میں پہنچے تو وہاں تسبیح سن کر حیران رہ گئے وحی آئی کہ ’ یہ سمندر کے جانوروں کی تسبیح ہے ‘ ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے بھی اللہ کی تسبیح شروع کر دی اسے سن کر فرشتوں نے کہا بار الٰہا ! یہ آواز تو بہت دور کی اور بہت کمزورہے کس کی ہے ؟ ہم تو نہیں پہچان سکے ۔ جواب ملا کہ ’ یہ میرے بندے یونس کی آواز ہے اس نے میری نافرمانی کی میں نے اسے مچھلی کے پیٹ کے قید خانے میں ڈال دیا ہے ‘ ۔ انہوں نے کہا پروردگار ان کے نیک اعمال تو دن رات کے ہر وقت چڑھتے ہی رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی سفارش قبول فرمائی اور مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو کنارے پر اگل دے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24778:ضعیف) تفسیر ابن کثیر کے ایک نسخے میں یہ روایت بھی ہے کہ { حضور علیہ السلام نے فرمایا { کسی کو لائق نہیں کہ وہ اپنے تیئں یونس بن متع سے افضل کہے ۔ اللہ کے اس بندے نے اندھیریوں میں اپنے رب کی تسبیح بیان کی ہے } } ۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ:156/12) اوپر جو روایت گزری اس کی وہی ایک سند ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { حضور اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب یونس علیہ السلام نے یہ دعا کی تو یہ کلمات عرش کے اردگرد گھومنے لگے ، فرشتے کہنے لگے بہت دور دراز کی یہ آواز ہے لیکن کان اس سے پہلے آشنا ضرور ہیں آواز بہت ضعیف ہے ۔ جناب باری نے فرمایا کیا ’ تم نے پہچانا نہیں ؟ ‘ انہوں نے کہا نہیں ۔ فرمایا ’ یہ میرے بندے یونس کی آوازہے ‘ ۔ فرشتوں نے کہا وہی یونس [ علیہ السلام ] جس کے پاک عمل قبول شدہ ہر روز تیری طرف چڑھتے تھے اور جن کی دعائیں تیرے پاس مقبول تھیں ، اے اللہ جیسے وہ آرام کے وقت نیکیاں کرتا تھا تو اس مصیبت کے وقت اس پر رحم کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ آپ علیہ السلام کو بغیر کسی تکلیف کے کنارے پر اگل دے } ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:599/4:ضعیف) استغفار موجب نجات ہے پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا ۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں ، وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کر دیتے ہیں ‘ ۔ خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونس ہی کو پڑھیں جسکی تاکید سید الانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے { سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں تھے ۔ میں نے سلام کیا آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیر المؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی آپ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ ” آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا ؟ “ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” نہ یہ آئے ، نہ انہوں نے سلام کیا ، نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو “ ۔ اس پر میں قسم کھائی تو ، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی ۔ پھر کچھ خیال کر کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ” ٹھیک ہے ۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی ۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے “ } ۔ { سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” میں آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا ۔ بہ وقت گزرتا گیا اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا : { کون ابواسحاق ؟} میں نے کہا جی ہاں یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں ہاں وہ دعا ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی «لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:87) { سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے } } } ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { جو بھی یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے گی } ۔ ابوسعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں “ ۔ ابن جریر میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ یونس بن متع علیہ السلام کی دعا میں ہے } ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ یونس علیہ السلام کے لیے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟ فرمایا : { ان کے لیے خاص اور تمام مسلمانوں کے لیے عام جو بھی یہ دعا کرے ، کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ’ ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں ‘ ۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:24779:ضعیف) ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں ” میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابوسعید ! اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ برادر زادے ” کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا ؟ “ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی دو آیتیں «وَذَا النٰونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادَیٰ فِی الظٰلُمَاتِ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَنَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنجِی الْمُؤْمِنِینَ» تلاوت فرمائیں اور فرمایا ” بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے “ ۔