قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ
انھوں نے کہا پھر اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاؤ، تاکہ وہ گواہ ہوجائیں۔
. قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو ۔ خلیل اللہ علیہ السلام یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضح کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کروں ، اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم و جاہل ہیں کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ چنانچہ مجمع ہوا ، سب چھوٹے بڑے آگئے ۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ علیہ السلام نے انہیں قائل معقول کرنے کے لیے فرمایا کہ ” یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے “ اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ علیہ السلام نے توڑا نہ تھا ۔ پھر فرمایا کہ ” مجھ سے کیا پوچھتے ہو ؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے ؟ “ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے ؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھہر سکتے ہیں ؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ { خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں ۔ دو تو راہ اللہ میں : ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ” ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے “ ۔ دوسرا یہ فرمانا کہ ” میں بیمار ہوں “ ، اور ایک مرتبہ سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر میں تھے ۔ اتفاق سے ایک ظالم بادشاہ کی حدود سے آپ علیہ السلام گزر رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے وہاں منزل کی تھی ۔ کسی نے بادشاہ کو خبر کر دی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے ۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ سارہ رضی اللہ عنہا کو لے آئے ۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ” میری بہن ہے “ اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو ۔ آپ علیہ السلام سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا ” سنو ، اس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتا چکا ہوں ۔ اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا ، اس لیے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو ، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں “ ، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام چلے آئے ۔ سارہ رضی اللہ عنہا وہاں سے چلیں اور آپ علیہ السلام نماز میں کھڑے ہوگئے ۔ جب سارہ رضی اللہ عنہا کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا ، اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑ لیا ، ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے ۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہو گیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کو پکڑنا چاہا ۔ وہی پھر عذاب الٰہی آ پہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا ۔ غرض تین دفعہ پے در پے یہی ہوا ۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے ۔ جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کر دے ۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں ۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ ” کہو کیا گزری ؟ “ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لیے آگئیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ ” یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3358)