سورة الأنبياء - آیت 44

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلکہ ہم نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو سازو سامان دیا، یہاں تک کہ ان پر لمبی عمر گزر گئی، پھر کیا وہ دیکھتے نہیں کہ بے شک ہم زمین کو آتے ہیں، اسے اس کے کناروں سے گھٹاتے آتے ہیں، تو کیا وہی غالب آنے والے ہیں؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ذلت و رسوائی کے مارے لوگ کافروں کے کینے کی اور اپنی گمراہی پر جم جانے کی وجہ بیان ہو رہی ہے کہ انہیں کھانے پینے کو ملتا رہا ، لمبی لمبی عمریں ملیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے کرتوت اللہ کو پسند ہیں ۔ اس کے بعد انہیں نصیحت کرتا ہے کہ ’ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کافروں کی بستیوں کی بستیاں بوجہ ان کے کفر کے ملیامیٹ کر دیں ؟ ‘ اس جملے کے اور بھی بہت سے معنی کئے گئے ہیں جو سورۃ الرعد میں ہم بیان کر آئے ہیں ۔ لیکن زیادہ ٹھیک معنی یہی ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت «ووَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَا حَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ» ۱؎ (46-الأحقاف:27) ، ’ ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں ہلاک کیں اور اپنی نشانیاں ہیر پھیر کر کے تمہیں دکھا دیں تاکہ لوگ اپنی برائیوں سے باز آجائیں ‘ ۔ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ایک معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ ’ ہم کفر پر اسلام کو غالب کرتے چلے آئے ہیں ‘ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:494/1:) کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں پر غالب کر دیا اور کس طرح جھٹلانے والی اگلی امتوں کو اس نے ملیامیٹ کر دیا اور اپنے مومنوں کو نجات دے دی ۔ کیا اب بھی یہ لوگ اپنے آپ کو غالب ہی سمجھ رہے ہیں ؟ نہیں نہیں بلکہ یہ مغلوب ہیں ، ذلیل ہیں ، رذیل ہیں ، نقصان میں ہیں ، بربادی کے ماتحت ہیں ۔ میں تو اللہ کی طرف سے مبلغ ہوں ، جن جن عذابوں سے تمہیں خبردار کر رہا ہوں ، یہ اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ اللہ کا کہا ہوا ہے ۔ ہاں جن کی آنکھیں اللہ نے اندھی کر دی ہیں ، جن کے دل و دماغ بند کر دیئے ہیں ، انہیں یہ اللہ کی باتیں سود مند نہیں پڑتیں ۔ بہروں کو آگاہ کرنا بے کار ہے کیونکہ وہ تو سنتے ہی نہیں ۔ ان گنہگاروں پر اک ادنیٰ سا بھی عذاب آ جائے تو واویلا کرنے لگتے ہیں اور اسی وقت بے ساختہ اپنے قصور کا اقرار کر لیتے ہیں ۔ قیامت کے دن عدل کی ترازو قائم کی جائے گی ۔ یہ ترازو ایک ہی ہوگی لیکن چونکہ جو اعمال اس میں تولے جائیں گے وہ بہت سے ہوں گے ، اس اعتبار سے لفظ جمع لائے ۔ «وَلَا یَظْلِمُ رَبٰکَ أَحَدًا» ۱؎ (18-الکہف:49) ’ اس دن کسی پر کسی طرح کا ذرا سا بھی ظلم نہ ہوگا ‘ ۔ اس لیے کہ حساب لینے والا خود اللہ ہے جو اکیلا ہی تمام مخلوق کے حساب کے لیے کافی ہے ۔ ہر چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی وہاں موجود ہو جائے گا ۔ اور آیت میں فرمایا تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ فرمان ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَإِن تَکُ حَسَنَۃً یُضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِن لَّدُنْہُ أَجْرًا عَظِیمًا» ۱؎ (4-النساء:40) ، ’ اللہ تعالیٰ ایک رائی کے دانے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ، نیکی کو بڑھاتا ہے اور اس کا اجر اپنے پاس سے بہت بڑا عنایت فرماتا ہے ‘ ۔ لقمان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی وصیتوں میں اپنے بیٹے سے فرمایا تھا ، «یَابُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِی صَخْرَۃٍ أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللہُ إِنَّ اللہَ لَطِیفٌ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:16) ’ بیٹے ایک رائی کے دانے برابر بھی جو عمل ہو خواہ وہ پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ، وہ اللہ اسے لائے گا ، وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے ‘ ۔ بخاری و مسلم میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ، میزان میں وزن دار ہیں اور اللہ کو بہت پیارے ہیں «سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ» } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2695) مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت کے ایک شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے اپنے پاس بلائے گا اور اس کے گناہوں کے ایک کم ایک سو دفتر اس کے سامنے کھولے جائیں گے ۔ جہاں تک نگاہ کام کرے وہاں تک کا ایک ایک دفتر ہوگا ۔ پھر اس سے جناب باری تعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ ’ کیا تجھے اپنے کئے ہوئے ان گناہوں میں سے کسی کا انکار ہے ؟ میری طرف سے جو محافظ فرشتے تیرے اعمال لکھنے پر مقرر تھے انہوں نے تجھ پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ؟ ‘ یہ جواب دے گا کہ اے اللہ ! نہ انکار کی گنجائش ہے نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظلماً لکھا گیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اچھا تیرے پاس کوئی عذر ہے یا کوئی نیکی ہے ؟ ‘ وہ گھبرایا ہوا کہے گا اے اللہ کوئی نہیں ۔ پروردگار عالم فرمائے گا ’ کیوں نہیں ؟ بیشک تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا ‘ ۔ اب ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں «اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَ اَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ» لکھا ہوا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اسے پیش کرو ‘ ۔ وہ کہے گا اے اللہ یہ پرچہ ان دفتروں کے مقابلے میں کیا کرے گا ؟ جناب باری فرمائے گا ’ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ‘ ۔ اب تمام کے تمام دفتر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس پرچے کا وزن ان تمام دفتروں سے بڑھ جائے گا ۔ یہ جھک جائے گا اور وہ اونچے ہو جائیں گے اور اللہ رحمان و رحیم کے نام سے کوئی چیز وزنی نہ ہوگی } } ۔ ابن ماجہ اور ترمذی میں بھی روایت ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2639،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن جب ترازوئیں رکھی جائیں گی پس ایک شخص کو لایا جائے گا اور ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور جو کچھ اس پر شمار کیا گیا ہے ، وہ بھی رکھا جائے گا تو وہ پلڑا جھک جائے گا اور اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا ۔ ابھی اس نے پیٹھ پھیری ہی ہوگی کہ اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا فرشتہ آواز دے گا اور کہے گا جلدی نہ کرو ۔ ایک چیز اس کی ابھی باقی رہ گئی ہے پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس میں «لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ» ہوگا وہ اس شخص کے ساتھ ترازو کے پلڑے میں رکھا جائے گا اور یہ پلڑا نیکی کا جھک جائے گا } ۔۱؎ (مسند احمد:221/2:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے غلام ہیں جو مجھے جھٹلاتے بھی ہیں ، میری خیانت بھی کرتے ہیں ، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں بھی انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور برا بھلا بھی کہتا ہوں ۔ اب فرمائیے میرا ان کا کیا حال ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان کی خیانت ، نافرمانی ، جھٹلانا و‏غیرہ جمع کیا جائے گا اور تیرا مارنا پیٹنا برا بھلا کہنا بھی ۔ اگر تیری سزا ان کی خطاؤں کے برابر ہوئی تو تو چھوٹ گیا نہ عذاب نہ ثواب ۔ ہاں اگر تیری سزا کم رہی تو تجھے اللہ کا فضل و کرم ملے گا اور اگر تیری سزا ان کے کرتوتوں سے بڑھ گئی تو تجھ سے اس بڑھی ہوئی سزا کا انتقام لیا جائے گا } ۔ یہ سن کر وہ صحابی رضی اللہ عنہ رونے لگے اور چیخنا شروع کردیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے کیا ہو گیا ؟ کیا اس نے قرآن کریم میں یہ نہیں پڑھا آیت «وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِن کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ» } (آیت:47) یہ سن کر اس صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان معاملات کو سن کر تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنے ان تمام غلاموں کو آزاد کردوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہئے یہ سب اللہ کی راہ میں آزاد ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3165،قال الشیخ الألبانی:صحیح)