سورة الأنبياء - آیت 34

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر تو مرجائے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

خضر علیہ السلام مر چکے ہیں جتنے لوگ ہوئے ، سب کو ہی موت ایک روز ختم کرنے والی ہے ۔ «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:26-27) ’ تمام روئے زمین کے لوگ موت سے ملنے والے ہیں ۔ ہاں رب کی جلال و اکرام والی ذات ہی ہمیشہ اور لازوال ہے ‘ ۔ اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ خضر علیہ السلام مرگئے ۔ یہ غلط ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں کیونکہ وہ بھی انسان ہی تھے ، ولی ہوں یا نبی ہوں یا رسول ہوں ، تھے تو انسان ہی ۔ ’ ان کفار کی یہ آرزو کتنی ناپاک ہے کہ تم مرجاؤ ؟ تو کیا یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ ‘ ایسا تو محض ناممکن ہے ، دنیا میں تو چل چلاؤ لگ رہا ہے ۔ کسی کو بجز ذات باری کے دوام نہیں ۔ کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ۔ پھر فرمایا «کُلٰ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ» (آیت35) ’ موت کا ذائقہ ہر ایک کو چکھنا پڑے گا ‘ ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ” لوگ میری موت کے آرزو مند ہیں تو کیا اس کے بارے میں میں ہی اکیلا ہوں ؟ یہ وہ ذائقہ نہیں جو کسی کو چھوڑ دے “ ۔ پھر فرماتا ہے ” بھلائی برائی سے ، سکھ دکھ سے ، مٹھاس کڑواہٹ سے ، کشادگی تنگی سے ہم اپنے بندوں کو آزما لیتے ہیں تاکہ شکر گزار اور ناشکرا ، صابر اور ناامید کھل جائے ۔ صحت و بیماری ، تونگری ، فقیری ، سختی ، نرمی ، حلال ، حرام ، ہدایت ، گمراہی ، اطاعت ، معصیت ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:440/18:) یہ سب آزمائشیں ہیں ۔ اس میں بھلے برے کھل جاتے ہیں ۔ تمہارا سب کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ اس وقت جو جیسا تھا کھل جائے گا ۔ بروں کوسزا نیکوں کو جزا ملے گی ‘ ۔