سورة الأنبياء - آیت 26

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا رکھی ہے، وہ پاک ہے، بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

خشیت الٰہی کفار مکہ کا خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے کہ ’ یہ بالکل غلط ہے ۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے ہیں ، بڑی بڑائیوں والے ہیں اور ذی عزت ہیں ۔ قولاً اور فعلاً ہروقت اطاعت الٰہی میں مشغول ہیں ۔ نہ تو کسی امر میں اس سے آگے بڑھیں ، نہ کسی بات میں اس کے فرمان کا خلاف کریں بلکہ جو وہ فرمائے ، دوڑ کر اس کی بجا آوری کرتے ہیں ۔ اللہ کے علم میں گھرے ہوئے ہیں اس پر ان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں کا اسے علم ہے ، ذرے ذرے کا وہ دانا ہے ۔ یہ پاک فرشتے بھی اتنی مجال نہیں رکھتے کہ اللہ کے کسی مجرم کی اللہ کے سامنے اس کی مرضی کے خلاف سفارش کے لیے لب ہلا سکیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ وہ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش اس کے پاس لے جا سکے ؟ ‘ اور آیت میں ہے «وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ» ۱؎ (34-سبأ:23) یعنی ’ اس کے پاس کسی کی شفاعت اس کی اپنی اجازت کے بغیر چل نہیں سکتی ‘ ۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ فرشتے اور اللہ کے مقرب بندے کل کے کل خشیت الٰہی سے ، ہیبت رب سے لرزاں و ترساں رہا کرتے ہیں ۔ ’ ان میں سے جو بھی خدائی کا دعویٰ کرے ، ہم اسے جہنم واصل کردیں ۔ ظالموں سے ہم ضرور انتقام لے لیا کرتے ہیں ‘ ۔ یہ بات بطور شرط ہے اور شرط کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وقوع بھی ہو ۔ یعنی یہ ضروری نہیں کہ خاص بندگان اللہ میں سے کوئی ایسا ناپاک دعویٰ کرے اور ایسی سخت سزا بھگتے ۔ اسی طرح کی آیت «قُلْ إِن کَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:81) اور «لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ۱؎ (39-الزمر:65) ، ہے ۔ پس نہ تو رحمن کی اولاد ہے نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرک ممکن ۔