أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے، جب کہ وہ کئی ہزار تھے، تو اللہ نے ان سے کہا مر جاؤ، پھر انھیں زندہ کردیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑے فضل والا ہے اور لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
موت اور زندگی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ لوگ چار ہزار تھے اور روایت میں ہے کہ آٹھ ہزار تھے ، بعض تو ہزار کہتے ہیں ، بعض چالیس ہزار بتاتے ہیں ، بعض تیس ہزار سے کچھ اوپر بتاتے ہیں ، یہ لوگ ذاوردان نامی بستی کے تھے جو واسط کی طرف ہے ، بعض کہتے ہیں اس بستی کا نام اذرعات تھا ، یہ لوگ طاعون کے مارے اپنے شہر کو چھوڑ کر بھاگے تھے ، ایک بستی میں جب پہنچے وہیں اللہ کے حکم سے سب مر گئے ، اتفاق سے ایک اللہ کے نبی کا وہاں سے گزرا ، ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر دوبارہ زندہ کر دیا ، بعض لوگ کہتے ہیں ایک چٹیل صاف ہوادار کھلے پر فضا میدان میں ٹھہرے تھے اور دو فرشتوں کی چیخ سے ہلاک کئے گئے تھے جب ایک لمبی مدت گزر چکی ان کی ہڈیوں کا بھی چونا ہو گیا ، اسی جگہ بستی بس گئی تب خرقیل نامی ایک نبی وہاں سے نکلے انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حکم دیا کہ تم کہو کہ اے بوسیدہ ہڈیو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گوشت پوست رگیں پٹھے بھی جوڑ لو ، چنانچہ اس نبی کے دیکھتے ہوئے یہ بھی ہو گیا ، پھر آواز آئی کہ اے روحو! اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہو رہا ہے کہ ہر روح اپنے اپنے قدیم جسم میں آ جائے چنانچہ یہ سب جس طرح ایک ساتھ مرے تھے اسی طرح ایک ساتھ جی اٹھے اور بےساختہ ان کی زبان سے نکلا «سبحانک لا الہ الا انت» اے اللہ تو پاک ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، یہ دلیل ہے قیامت کے دن اسی جسم کے ساتھ دوبارہ جی اُٹھنے کی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر بڑا بھاری فضل و کرم ہے کہ وہ زبردست ٹھوس نشانیاں اپنی قدرت قاہرہ کی دکھا رہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ناقدرے اور بے شکرے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:266/5) ، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی جگہ بچاؤ اور پناہ نہیں یہ لوگ وبا سے بھاگے تھے اور زندگی کے حریص تھے تو اس کے خلاف عذاب آیا اور فوراً ہلاک ہو گئے ۔ مسند احمد کی اس حدیث میں ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف چلے اور سرغ میں پہنچے تو سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وغیرہ سرداران لشکر ملے اور خبر دی کہ شام میں آج کل وبا ہے چنانچہ اس میں اختلاف ہوا کہ اب وہاں جائیں یا نہ جائیں ، بالآخر سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جب آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب وبا کسی جگہ آئے اور تم وہاں ہو تو وہاں سے اس کے ڈر سے مت بھاگو ، اور جب تم کسی جگہ وبا کی خبر سن لو تو وہاں مت جاؤ ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر وہاں سے واپس چلے گئے‘ ۔ (صحیح بخاری:5729) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے جو اگلی امتوں پر ڈالا گیا تھا ۔ (مسند احمد:193/1صحیح بالشواھد) ۔ پھر فرمایا کہ جس طرح ان لوگوں کا بھاگنا انہیں موت سے نہ بچا سکا اسی طرح جہاد سے منہ موڑنا بھی بے کار ہے ۔ اجل اور رزق دونوں قسمت میں مقرر ہو چکے ہیں ، رزق نہ بڑھے نہ گھٹے موت نہ پہلے آئے نہ پیچھے ہٹے ، اور جگہ ارشاد ہے کہ«الَّذِینَ قَالُوا لِإِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِکُمُ الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ » جو لوگ اللہ کی راہ میں اٹک بیٹھے ہیں اور اپنے ساتھیوں سے بھی کہتے ہیں کہ یہ مجاہد شہداء بھی اگر ہماری طرح رہتے تو مارے نہ جاتے ، ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو ذرا اپنی جانوں سےبھی موت کو ہٹادو (3-آل عمران:168) اور جگہ ہے کہ یہ« أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ قِیلَ لَہُمْ کُفٰوا أَیْدِیَکُمْ وَأَقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَیٰ أَجَلٍ قَرِیبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدٰنْیَا قَلِیلٌ وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَیٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِیلًا ﴿٧٧﴾ أَیْنَمَا تَکُونُوا یُدْرِککٰمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنتُمْ فِی بُرُوجٍ مٰشَیَّدَۃٍ ۗ وَإِن تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِ اللہِ ۖ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ ۚ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ ۖ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا ،کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا؟ آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روانہ رکھا جائے گا ،تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو ، اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے ، انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں ۔ ‘(4-النساء:77-78)، اس موقع پر اسلامی لشکروں کے جیوٹ سردار اور بہادروں کے پیشوا اللہ کی تلوار اسلام کے پشت پناہ ابوسلیمان سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا وہ فرمان وارد کرنا بالکل مناسب وقت ہو گا جب آپ رضی اللہ عنہ نے عین اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ کہاں ہیں موت سے ڈرنے والے ، لڑائی سے جی چرانے والے نامرد ، وہ دیکھیں کہ میرا جوڑ جوڑ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زخمی ہو چکا ہے ، سارے جسم میں کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار نیزہ برچھا نہ لگا ہو لیکن دیکھو کہ آج میں بستر میں فوت ہو رہا ہوں ، میدان جنگ میں نہ رہا ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے ، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم ۔ (صحیح مسلم:758) ، اس آیت کو سن کر سیدنا ابوالاصداح انصاری رضی اللہ عنہما نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئیے ، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے (بیہقی فی شعب الایمان3452: ضعیف) قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ ’ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا‘ جیسے اور جگہ ہے آیت «مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ» ( 2 ۔ البقرہ : 261 ) ، یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے ( مسند احمد296/2 ضعیف ) لیکن یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا ، آپ رضی اللہ عنہ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا ، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی ، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ لوں ، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں ، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا ، وہاں آپ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں ؟ ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت «وفَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ» ( 9 ۔ التوبہ : 38 ) یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے ۔ اللہ کی قسم !میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے (میزان 2938 ضعیف) ۔ اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں «لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ المُلکُ وَلَہُ الحَمدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَئٍ قَدِیرٌ» پڑھے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے (سنن ترمذی:3428 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ، ابن ابی حاتم میں ہے آیت «مَّثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ» ؎ ( البقرہ : 261 ) ، کی آیت اتری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ میری امت کو اور زیادہ زیادتی عطا فرما آیت پس «من الذی» الخ کی جب آیت اتری تو پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعا کی تو «إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَہُم بِغَیْرِ حِسَابٍ» ۱؎ ( 39-الزمر : 10 ) کی آیت اتری ، (صحیح ابن حبان4648سخت ضعیف) سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت «قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ» ( 112-الإخلاص : 1 ) ، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں ، کیا میں اسے سچ مان لوں ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً» ( البقرہ : 245 ) فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی ؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو ، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے ، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔