أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُولِي النُّهَىٰ
پھر کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کردیے، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں، بے شک اس میں عقلوں والوں کے لیے یقیناً کئی نشانیاں ہیں۔
ویرانوں سے عبرت حاصل کرو جو لوگ تجھے نہیں مان رہے اور تیری شریعت کا انکار کر رہے ہیں ، کیا وہ اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلے جنہوں نے یہ ڈھنگ نکالے تھے ، ہم نے انہیں تباہ و برباد کر دیا ؟ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی اور ایک سانس چلتا ہوا اور ایک زبان بولتی ہوئی باقی نہیں بچی ۔ ان کے بلند و بالا ، پختہ اور خوبصورت ، کشادہ اور زینت دار محل ویران کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے ان کی آمد ورفت رہتی ہے ۔ اگر یہ عقلمند ہوتے تو یہ سامان عبرت ان کے لیے بہت کچھ تھا ۔ کیا یہ زمین میں چل پھر کر قدرت کی ان نشانیوں پر دل سے غور فکر نہیں کرتے ؟ کیا کانوں سے ان کے درد ناک فسانے سن کرعبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا ان کی اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھولتے ؟ یہ آنکھوں کے ہی اندھے نہیں بلکہ دل کے بھی اندھے ہیں ۔ سورۃ «الم السجدہ» میں بھی مندرجہ بالا آیت جیسی آیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات مقرر کر چکا ہے کہ جب تک بندوں پر اپنی حجت ختم نہ کر دے انہیں عذاب نہیں کرتا ۔ ان کے لیے اس نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے ، اسی وقت ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی ۔ اگریہ بات نہ ہوتی تو ادھر گناہ کرتے ادھر پکڑ لیے جاتے ۔ تو ان کی تکذیب پر صبر کر ، ان کی بے ہودہ باتوں پر برداشت کر ۔ تسلی رکھ یہ میرے قبضے سے باہر نہیں ۔ سورج نکلنے سے پہلے سے مراد تو نماز فجر ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے سے مراد نماز عصر ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { ہم ایک مرتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو بغیر مزاحمت اور تکلیف کے دیکھ رہے ہو ، پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج غروب ہونے سے پہلے کی نماز کی پوری طرح حفاظت کرو ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:554) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ان دونوں وقتوں کی نماز پڑھنے والا آگ میں نہ جائے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:634) مسند اور سنن میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، { سب سے ادنی درجے کا جنتی وہ ہے جو دو ہزار برس کی راہ تک اپنی ہی اپنی ملکیت دیکھے گا سب سے دور کی چیز بھی اس کے لیے ایسی ہی ہو گی جیسے سب سے نزدیک کی اور سب سے اعلیٰ منزل والے تو دن میں دو دو دفعہ دیدار الٰہی کریں گے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3330،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے رات کے وقتوں میں بھی تہجد پڑھا کر ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب اور عشاء کی نماز ہے ۔ اور دن کے وقتوں میں بھی اللہ کی پاکیزگی بیان کیا کر ۔ تاکہ اللہ کے اجر و ثواب سے تو خوش ہو جائے ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبٰکَ فَتَرْضَیٰ» ۱؎ (93-الضحی:5) عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہو جائے گا ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو ! وہ کہیں گے «لبیک ربنا و سعدیک» ۔ { اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت ہی خوش ہیں تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں ۔ پھر کیا وجہ کہ ہم راضی نہ ہوں ۔ جناب باری ارحم الراحمین فرمائے گا ، لو میں تمہیں ان سب سے افضل چیز دیتا ہوں ۔ پوچھیں گے اے اللہ ! اس سے افضل چیز کیا ہے ؟ فرمائے گا میں تمہیں اپنی رضا مندی دیتا ہوں کہ اب کسی وقت بھی میں تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6549) اور حدیث میں ہے کہ { جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا ، وہ اسے پورا کرنے والا ہے ، کہیں گے اللہ کے سب وعدے پورے ہوئے ۔ ہمارے چہرے روشن ہیں ، ہماری نیکیوں کا پلہ گراں رہا ، ہمیں دوزخ سے ہٹا دیا گیا ، جنت میں داخل کر دیا گیا ۔ اب کون سی چیز باقی ہے ؟ اسی وقت حجاب اٹھ جائیں گے اور دیدار الٰہی ہو گا ۔ اللہ کی قسم اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہ ہو گی ۔ یہی زیادتی ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:181)