وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کو اس سے پہلے تاکید کی، پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں ارادے کی کچھ پختگی نہ پائی۔
انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا ۔ مجاہد اور حسن رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں اس حکم کو آدم علیہ السلام نے چھوڑ دیا ۔ پھر آدم علیہ السلام کی شرافت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے ۔ «سورۃ البقرہ» ، «سورۃ الاعراف» ، «سورۃ الحجر» اور «سورۃ الکہف» میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جا چکی ہے اور سورۃ ص میں بھی اس کا بیان آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ ان تمام سورتوں میں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ، پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لیے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے ، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کر دیا ۔ اس وقت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حواء علیہا السلام کا دشمن ہے ، اس کے بہکاوے میں نہ آ جانا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے ۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑ جائے گی ۔ یہاں تو بے محنت و مشقت روزی پہنچ رہی ہے ۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ، ناممکن ہے کہ ننگے رہو ۔ اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو ۔ پھر یہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے ، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے ۔ اگر شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آ جائیں گی ۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلا دیا ۔