وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو لوگ تم میں سے فوت کیے جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے لیے ایک سال تک نکالے بغیر سامان دینے کی وصیت کریں، پھر اگر وہ نکل جائیں تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جو وہ معروف طریقے میں سے اپنی جانوں کے بارے میں کریں اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
بیوگان کے قیام کا مسئلہ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت اس سے پہلے کی آیت یعنی چار مہینے دس رات کی عدت والی آیت کی منسوخ ہو چکی ہے ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کہا کہ جب یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے تو پھر آپ رضی اللہ عنہ اسے قرآن کریم میں کیوں لکھوا رہے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا بھتیجے جس طرح اگلے قرآن میں یہ موجود ہے یہاں بھی موجود ہی رہے گی ، ہم کوئی تغیر و تبدیل نہیں کر سکتے ۔ (صحیح بخاری:4530) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے تو یہی حکم تھا کہ سال بھر تک نان نفقہ اس بیوہ عورت کو میت کے مال سے دیا جائے اور اسی کے مکان میں یہ رہے ، پھر آیت میراث نے اسے منسوخ کر دیا اور خاوند کی اولاد ہونے کی صورت میں مال متروکہ کا آٹھواں حصہ اور اولاد نہ ہونے کے وقت چوتھائی مال ورثہ کا مقرر کیا گیا اور عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوئی ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:871/2) اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں سورۃ الاحزاب کی آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسٰوْہُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدٰوْنَہَا فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا» ( 33 ۔ الاحزاب : 49 ) ، نے اسے منسوخ کر دیا ۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں سات مہینے بیس دن جو اصلی عدت چار مہینے دس دن کے سوا کے ہیں اس آیت میں اس مدت کا حکم ہو رہا ہے ، عدت تو واجب ہے لیکن یہ زیادتی کی مدت کا عورت کو اختیار ہے خواہ وہیں بیٹھ کر یہ زمانہ گزار دے خواہ نہ گزارے اور چلی جائے ، میراث کی آیت نے رہنے سہنے کے مکان کو بھی منسوخ کر دیا ، وہ جہاں چاہ عدت گزارے مکان کا خرچ خاوند کے ذمہ نہیں ، ۱(صحیح بخاری:4531) پس ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت نے سال بھر تک کی عدت کو واجب ہی نہیں کیا پھر منسوخ ہونے کے کیا معنی ؟ یہ تو صرف خاوند کی وصیت ہے اور اسے بھی عورت پورا کرنا چاہے تو کرے ورنہ اس پر جبر نہیں ، وصیتہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں وصیت کرتا ہے جیسے آیت «یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ»( 4 ۔ النسآء : 11 ) ، اس کا نصب «فلتو صوالھن» کو محذوف مان کر ہے ۔ «وصیتہ» کی قرأت یہی ہے یعنی «کتب علیکم وصیتہ» پس اگر عورتیں سال بھر تک اپنے فوت شدہ خاوندوں کے مکانوں میں رہیں تو انہیں نہ نکالا جائے اور اگر وہ عدت گزار کر جانا چاہیں تو ان پر کوئی جبر نہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور بھی بہت سے لوگ اسی کو اختیار کرتے ہیں اور باقی کی جماعت اسے منسوخ بتاتی ہے ، پس اگر ان کا ارادہ اصلی عدت کے بعد کے زمانہ کے منسوخ ہونے کا ہے تو خیر ورنہ اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے ، وہ کہتے ہیں خاوند کے گھر میں عدت گزارنی ضروری ہے اور اس کی دلیل موطا مالک کی حدیث ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ صاحبہ فریعہ بن مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا ہمارے غلام بھاگ گئے تھے جنہیں ڈھونڈنے کیلئے میرے خاوند گئے قدوم میں ان غلاموں سے ملاقات ہوئی لیکن انہوں نے آپ کو قتل کر دیا ان کا کوئی مکان نہیں جس میں عدت گزاروں اور نہ کچھ کھانے پینے کو ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو اپنے میکے چلی جاؤں اور وہیں عدت پوری کروں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اجازت ہے ، میں لوٹی ابھی تو میں حجرے میں ہی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا یا خود بلایا اور فرمایا تم نے کیا کہا ، میں نے پھر قصہ بیان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی گھر میں ہی ٹھہری رہو یہاں تک کہ عدت گزر جائے ، چنانچہ میں نے وہیں عدت کا زمانہ پورا کیا یعنی چار مہینے دس دن ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں آپ رضی اللہ عنہما نے مجھے بلوایا اور مجھ سے یہی مسئلہ پوچھا ، میں نے اپنا یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سمیت سنایا ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی اسی کی پیروی کی اور یہی فیصلہ دیا (موطا591/2) ، اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔