وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا
اور اسی طرح ہم نے اسے عربی قرآن بنا کرنازل کیا اور اس میں ڈرانے کی باتیں پھیر پھیر کر بیان کیں، شاید کہ وہ ڈرجائیں، یا یہ ان کے لیے کوئی نصیحت پیدا کردے۔
وعدہ حق وعید حق چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک و بد اعمال کا بدلہ ملنا ہی ہے ، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لیے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پر لوگوں کو ڈرایا ، طرح طرح سے ڈراوے سنائے ۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں ، بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غور و فکر نصیحت و پند پیدا ہو ، اطاعت کی طرف جھک جائیں ، نیک کاموں کی کوشش میں لگ جائیں ۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے ، دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے ، وہ خود حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کی وعید حق ہے ، اس کے رسول علیہم السلام حق ہیں ، جنت دوزخ حق ہے ، اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسر عدل و حق ہے ۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگاہ کئے بغیر کسی کوسزا دے ، وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا ، حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ جب ہماری وحی اتر رہی ہو ، اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو ، پہلے پوری طرح سن لیا کرو ۔ جیسے سورۃ القیامہ میں فرمایا «لَا تُحَرِّکْ بِہِ * لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ * فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ * ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہُ » ۱؎ (75-القیامۃ:16-19) ’ یعنی جلدی کر کے بھول جانے کے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو ۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے ۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ ‘ حدیث میں ہے کہ { پہلے آپ جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی ، جب یہ آیت اتری تو آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے } ۱؎ (صحیح بخاری:5) اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الٰہی جتنی نازل ہو گی ، مجھے یاد ہو جایا کرے گی ۔ ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو ۔ جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ، اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے ۔ حدیث میں ہے کہ { وحی برابر پے در پے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے ، اس دن بھی بکثرت وحی اتری ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:4982) ابن ماجہ کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے « اللہُمَّ اِنْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتنِی وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعنِی وَزِدْنِی عِلْمًا وَالْحَمْد لِلہِ عَلَی کُلّ حَال » ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور آخر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں « وَأَعُوذ بِاَللَّہِ مِنْ حَال أَہْل النَّار » ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3599،قال الشیخ الألبانی:ضعیف)