يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا
اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر جس کے لیے رحمان اجازت دے اور جس کے لیے وہ بات کرنا پسند فرمائے۔
نوعیت شفاعت اور روز قیامت قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ«مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ دوسرے کے لیے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے ۔ ‘ «وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِی شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللہُ لِمَن یَشَاءُ وَیَرْضَیٰ » ۱؎ (53-النجم:26) ’ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کر سکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ ۔ سب کو خود خوف لگا ہو گا ، بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی ۔ ‘ «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا ۖ لَّا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا » ۱؎ (78-النبأ:38) ’ فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے ، بے اجازت الٰہی کوئی لب نہ کھول سکے گا ۔ ‘ { خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے ، اللہ کی خوب حمد و ثنا کریں گے ، دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کر کے جنت میں لے جائیں گے ، پھر لوٹیں گے پھر یہی حکم ہو گا ۔ } «صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء» ۔ اور حدیث میں ہے کہ { حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں ایک مثقال ایمان ہو ، پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے ۔ پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم اس سے بھی کم ، اس سے بھی کم ایمان ہو ، اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ، الخ ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:183) اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہٰ کر رکھا ہے ، مخلوق اس کے علم کا احاطہٰ کر ہی نہیں سکتی ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ» (2-البقرۃ:265) ’ اس کے علم میں سے صرف وہی معلوم کر سکتے ہیں جو وہ چاہے ۔ ‘ تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت و نرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں ، اس لیے کہ وہ موت و فوت سے پاک ہے ، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے ، وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہرچیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے ۔ سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے ، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے ۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا ۔ کیونکہ ہر حقدار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کے حق دلوائے گا یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا ، مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ، کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا ۔ } صحیح حدیث میں ہے { لوگو ! ظلم سے بچو ۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرا بن کر آئے گا } ۱؎ (صحیح مسلم:2578) اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا ، وہ تباہ و برباد ہوا ، اس لیے کہ «إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (31-لقمان:13) ’ شرک ظلم عظیم ہے ۔ ‘ ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں ۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بے کھٹکے ہیں ۔