سورة طه - آیت 109

يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس دن سفارش نفع نہ دے گی مگر جس کے لیے رحمان اجازت دے اور جس کے لیے وہ بات کرنا پسند فرمائے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

نوعیت شفاعت اور روز قیامت قیامت کے دن کسی کی مجال نہ ہو گی کہ«مَن ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِندَہُ إِلَّا بِإِذْنِہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) ’ دوسرے کے لیے شفاعت کرے ہاں جسے اللہ اجازت دے ۔ ‘ «وَکَم مِّن مَّلَکٍ فِی السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِی شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلَّا مِن بَعْدِ أَن یَأْذَنَ اللہُ لِمَن یَشَاءُ وَیَرْضَیٰ » ۱؎ (53-النجم:26) ’ نہ آسمان کے فرشتے بے اجازت کسی کی سفارش کر سکیں نہ اور کوئی بزرگ بندہ ۔ سب کو خود خوف لگا ہو گا ، بے اجازت کسی کی سفارش نہ ہو گی ۔ ‘ «یَوْمَ یَقُومُ الرٰوحُ وَالْمَلَائِکَۃُ صَفًّا ۖ لَّا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا » ۱؎ (78-النبأ:38) ’ فرشتے اور روح صف بستہ کھڑے ہوں گے ، بے اجازت الٰہی کوئی لب نہ کھول سکے گا ۔ ‘ { خود سید الناس اکرم الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عرش تلے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے ، اللہ کی خوب حمد و ثنا کریں گے ، دیر تک سجدے میں پڑے رہیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ، اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا سر اٹھاؤ ، کہو تمہاری بات سنی جائے گی ، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔ پھر حد مقرر ہو گی آپ ان کی شفاعت کر کے جنت میں لے جائیں گے ، پھر لوٹیں گے پھر یہی حکم ہو گا ۔ } «صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی سائر الانبیاء» ۔ اور حدیث میں ہے کہ { حکم ہو گا کہ جہنم سے ان لوگوں کو بھی نکال لاؤ جن کے دل میں ایک مثقال ایمان ہو ، پس بہت سے لوگوں کو نکال لائیں گے ۔ پھر فرمائے گا جس کے دل میں آدھا مثقال ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں بقدر ایک ذرے کے ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ جس کے دل میں اس سے بھی کم اس سے بھی کم ، اس سے بھی کم ایمان ہو ، اسے بھی جہنم سے آزاد کرو ، الخ ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:183) اس نے تمام مخلوق کا اپنے علم سے احاطہٰ کر رکھا ہے ، مخلوق اس کے علم کا احاطہٰ کر ہی نہیں سکتی ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَا یُحِیطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ» (2-البقرۃ:265) ’ اس کے علم میں سے صرف وہی معلوم کر سکتے ہیں جو وہ چاہے ۔ ‘ تمام مخلوق کے چہرے عاجزی پستی ذلت و نرمی کے ساتھ اس کے سامنے پست ہیں ، اس لیے کہ وہ موت و فوت سے پاک ہے ، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہنے والا ہے ، وہ نہ سوئے نہ اونگھے ۔ خود اپنے آپ قائم رہنے والا اور ہرچیز کو اپنی تدبیر سے قائم رکھنے والا ہے ۔ سب کی دیکھ بھال حفاظت اور سنبھال وہی کرتا ہے ، وہ تمام کمالات رکھتا ہے اور ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، بغیر رب کی مرضی کے نہ پیدا ہو سکے نہ باقی رہ سکے ۔ جس نے یہاں ظلم کئے ہوں گے وہ وہاں برباد ہو گا ۔ کیونکہ ہر حقدار کو اللہ تعالیٰ اس دن اس کے حق دلوائے گا یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا ۔ حدیث قدسی میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ عزوجل فرمائے گا ، مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم ، کسی ظالم کے ظلم کو میں اپنے سامنے سے نہ گزرنے دوں گا ۔ } صحیح حدیث میں ہے { لوگو ! ظلم سے بچو ۔ ظلم قیامت کے دن اندھیرا بن کر آئے گا } ۱؎ (صحیح مسلم:2578) اور سب سے بڑھ کرنقصان یافتہ وہ ہے جو اللہ سے شرک کرتا ہوا مرا ، وہ تباہ و برباد ہوا ، اس لیے کہ «إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ» ۱؎ (31-لقمان:13) ’ شرک ظلم عظیم ہے ۔ ‘ ظالموں کا بدلہ بیان فرما کر متقیوں کا ثواب بیان ہو رہا ہے کہ نہ ان کی برائیاں بڑھائی جائیں نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں ۔ گناہ کی زیادتی اور نیکی کی کمی سے وہ بے کھٹکے ہیں ۔