حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔
صلوۃ وسطی کون سی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا حکم ہو رہا ہے کہ نمازوں کے وقت کی حفاظت کرو اس کی حدود کی نگرانی رکھو اور اول وقت ادا کرتے رہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سوال کرتے ہیں کہ کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو وقت پر پڑھنا ، پھر پوچھا کون سا ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ، پھر کون سا ؟ ماں باپ سے بھلائی کرنا ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر میں کچھ اور بھی پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بھی جواب دیتے ۔ (صحیح بخاری:5970) سیدہ ام فردہ رضی اللہ عنہا جو بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ہیں ، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعمال کا ذِکر فرما رہے تھے ۔ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کو اول وقت ادا کرنے کی جلدی کرنا ہے ۔ (مسند احمد:374/6:صحیح) امام ترمذی اس حدیث کے ایک راوی عمری کو غیر قوی بتاتے ہیں ۔ پھر صلوۃ وسطی کی مزید تاکید ہو رہی ہے ۔ سلف و خلف کا اس میں اختلاف ہے کہ صلوٰۃ وسطی کس نماز کا نام ہے ، سیدنا علی ، ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول ہے کہ اس سے مراد صبح کی نماز ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ نماز پڑھتے ہیں جس میں ہاتھ اٹھا کر قنوت بھی پڑھتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں یہی وہ نماز وسطیٰ ہے جس میں قنوت کا حکم ہوا ہے ۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ بصرے کی مسجد کا ہے اور قنوت آپ نے رکوع سے پہلے پڑھی تھی ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بصرے میں میں نے سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ کے پیچھے صبح کی نماز ادا کی پھر میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ صلوٰۃ وسطی کون سی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہی صبح کی نماز ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بہت سے اصحاب اس مجمع میں تھے اور سب نے یہی جواب دیا ۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بھی یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک صبح کی نماز میں ہی قنوت ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب کی نماز ہے اس لیے کہ اس سے پہلے بھی چار رکعت والی نماز ہے اور اس کے بعد بھی چار رکعت والی نماز ہے اور سفر میں دونوں قصر کی جاتی ہیں لیکن مغرب پوری ہی رہتی ہے ۔ یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے بعد دو نمازیں رات کی عشاء اور فجر وہ ہیں جن میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے اور دو نمازیں اس سے پہلی دن کی وہ ہیں کہ جن میں آہستہ قرأت پڑھی جاتی ہے یعنی ظہر ، عصر ۔ بعض کہتے ہیں یہ نماز ظہر کی ہے ۔ ایک مرتبہ چند لوگ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے ، وہاں یہی مسئلہ چھڑا ، لوگوں نے ایک آدمی بھیج کر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ ظہر کی نماز ہے جسے حضور علیہ السلام اوّل وقت پڑھا کرتے تھے ۔ (طیالسی:628:ضعیف ) سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے زیادہ بھاری نماز صحابہ رضی اللہ عنہم پر اور کوئی نہ تھی اس لیے یہ آیت نازل ہوئی اور اس سے پہلے بھی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد دو ہیں ۔ (سنن ابوداود:411 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) آپ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ قریشیوں کی ایک جماعت کے بھیجے ہوئے دو شخصوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ عصر ہے ، پھر دو اور شخصوں نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ظہر ہے ، پھر ان دونوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا ، آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا یہ ظہر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آفتاب ڈھلتے ہی پڑھا کرتے تھے ، بمشکل ایک دو صف کے لوگ آتے تھے ، کوئی نیند میں ہوتا کوئی کاروبار میں مشغول ہوتا جس پر یہ آیت اتری اور آپ نے فرمایا تو یہ لوگ اس حرکت سے باز آئیں یا میں ان کے گھروں کو جلا دوں گا ، (مسند احمد:206/5:منقطع و ضعیف) لیکن اس کے راوی زبرقان نے صحابی سے ملاقات نہیں کی لیکن سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے اور روایات سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ اس سے مراد ظہر کی نماز ہی بتاتے تھے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:5453:صحیح موقوف) ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ ہے کہ سیدنا عمر ، ابوسعید ، عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کی ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ اکثر علماء صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا یہی قول ہے ، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی ، بلکہ جمہور لوگوں کا ، حافظ ابومحمد عبدالمومن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام «کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ» ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے ۔ سیدنا عمر ، علی ، ابن مسعود ، ابوایوب ، عبداللہ بن عمرو ، سمرہ بن جندب ، ابوہریرہ ، ابوسعید ، حفصہ ، ام حبیبہ ، ام سلمہ ، ابن عمر ، ابن عباس ، عائشہ ( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) وغیرہ کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے ۔ امام احمد اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے ۔ ابویوسف ، محمد سے بھی یہی مروی ہے ۔ ابن حبیب مالکی رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ اس قول کی دلیل سنیئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب میں فرمایا اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دِلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا ۔ (صحیح بخاری:2931) سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5426:حسن بالشواھد) مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے ۔ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے ۔ (مسند احمد:8/5:صحیح المتن) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ اس بارے میں سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم نے بھی ایک مرتبہ اس میں اختلاف کیا تو ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ مجلس میں سے اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر گئے ، اجازت مانگ کر اندر داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کر کے باہر آ کر ہمیں فرمایا یہ نماز عصر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5439) عبدالعزیز بن مروان رحمہ اللہ کی مجلس میں بھی ایک مرتبہ یہی مسئلہ پیش آیا ، آپ رحمہ اللہ نے فرمایا جاؤ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھ آؤ ، تو ایک شخص نے کہا کہ مجھ سے سنیئے مجھے سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے میرے بچپن میں یہی مسئلہ پوچھنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری چھنگلیا یعنی سب سے چھوٹی انگلی پکڑ کر فرمایا دیکھ یہ تو ہے فجر کی نماز ، پھر اس کے پاس والی انگلی تھام کر فرمایا یہ ہوئی ظہر کی ، پھر انگوٹھا پکڑ کر فرمایا یہ ہے مغرب کی نماز ، پھر شہادت کی انگلی پکڑ کر فرمایا یہ عشاء کی نماز ، پھر مجھ سے کہا اب تمہاری کون سی انگلی باقی رہی ، میں نے کہا بیچ کی ، فرمایا اور نماز کون سی باقی رہی ، میں نے کہا عصر کی ، فرمایا یہی صلوۃ وسطیٰ ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:5445) لیکن یہ روایت بہت ہی غریب ہے ، غرض صلوٰۃ وسطیٰ سے نماز عصر مراد ہونا بہت سی احادیث میں وارد ہے جن میں سے کوئی حسن ہے کوئی صحیح ہے کوئی ضعیف ہے ۔ ترمذی مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیثیں ہیں ۔ پھر اس نماز کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکیدیں اور سختی کے ساتھ محافظت بھی ثابت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے جس سے عصر کی نماز فوت ہو جائے گویا اس کا گھرانہ تباہ ہو گیا اور مال و اسباب برباد ہو گیا ۔ (صحیح بخاری:552) اور حدیث میں ہے ابر والے دن نمازِ اول وقت پڑھو ، سنو جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ:694 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز قبیلہ غفار کی ایک وادی میں جس کا نام حمیص تھا ، ادا کی پھر فرمایا یہی نماز تم سے اگلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا ، سنو اسے پڑھنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے اس کے بعد کوئی نماز نہیں جب تک کہ تم تارے نہ دیکھ لو ۔ (صحیح مسلم:830:صحیح) ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے آزاد کردہ غلام ابویونس رحمہ اللہ سے فرماتی ہیں کہ میرے لیے ایک قرآن شریف لکھو اور جب اس آیت «حَافِظُوا» تک پہنچو تو مجھے اطلاع کرنا ، چنانچہ جب آپ کو اطلاع دی گئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے آیت «وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَیٰ» کے بعد آیت «وصلوۃ العصر» لکھوایا اور فرمایا میں نے خود اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ (صحیح مسلم:629:صحیح) ایک روایت میں آیت «وھی صلوۃ العصر» کا لفظ بھی ہے ( ابن جریر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیوی صاحبہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عمرو بن رافع رضی اللہ عنہ کو جو آپ کے قرآن کے کاتب تھے ، اسی طرح یہ آیت لکھوائی ۔ (مؤطا:139/1:صحیح) اس حدیث کے بھی بہت سے طریقے ہیں اور کئی کتابوں میں مروی ہے کہ ام المؤمنین نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی الفاظ سنے ہیں ، سیدنا نافع رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے یہ قرآن شریف اپنی آنکھوں سے دیکھا ، یہی عبارت واؤ کے ساتھ تھی ، سیدنا ابن عباس اور عبید بن عسیر رضی اللہ عنہما کی قرأت بھی یونہی ہے ، ان روایات کو مدنظر رکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ چونکہ واؤ عطف کیلئے ہوتا ہے کہ صلوٰۃ الوسطیٰ اور ہے اور صلوٰۃ عصر اور ہے لیکن اس کا جاب یہ ہے کہ اگر اسے بطور حدیث کے مانا جائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہما والی حدیث بہت زیادہ صحیح ہے اور اس میں صراحت موجود ہے ، رہا واؤ ، سو ممکن ہے کہ زائد ہو عاطفہ نہ ہو جیسے آیت «وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ» ( 6 ۔ الانعام : 55 ) میں اور «وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ» ( 6 ۔ الانعام : 75 ) میں یا یہ واؤ عطف صفت کیلئے ہو عطف ذات کیلئے نہ ہو جیسے آیت «وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّـبِیّٖنَ» ( 33 ۔ الاحزاب : 40 ) میں اور جیسے آیت «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی الَّذِی خَلَقَ فَسَوَّیٰ وَالَّذِی قَدَّرَ فَہَدَیٰ وَالَّذِی أَخْرَجَ الْمَرْعَیٰ» ( 87 ۔ الاعلی : 1-4 ) میں ۔ اس کی مثالیں اور بھی بہت سی ہیں ، شاعروں کے شعروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے ۔ سیبویہ جو نحویوں کے امام ہیں ، فرماتے ہیں کہ «” مررت باخیک وصاحبک “» کہنا درست ہے حالانکہ صاحب اور اخ سے مراد ایک ہی شخص ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور اگر اس قرأت کے الفاظ کو بطور قرآنی الفاظ کے مانا جائے تو ظاہر ہے کہ اس خبر واحد سے قرأت قرآنی ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ تواتر ثابت نہ ہو ، اسی لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے اپنے مرتب کردہ قرآن میں اس قرأت کو نہیں لیا ، اور نہ ساتوں قاریوں کی قرأت میں یہ الفاظ ہیں بلکہ نہ کسی اور ایسے معتبر قاری کی یہ قرات پائی گئی ہے ، علاوہ ازیں ایک حدیث اور ہے جس سے اس قرأت کا منسوخ ہونا ثابت ہو رہا ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ یہ آیت اتری «حافظو علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلوٰۃ العصر» ہم ایک مدت تک اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کو پڑھتے رہے پھر یہ تلاوت منسوخ ہو گئی اور آیت یوں ہی رہی آیت «حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَیٰ» ( البقرہ : 238 ) ایک شخص نے راوی حدیث سیدنا شفیق رضی اللہ عنہما سے کہا کہ پھر کیا یہ نماز عصر کی نماز ہی ہے ، فرمایا میں تو سنا چکا کہ کس طرح آیت اتری اور کس طرح منسوخ ہوئی ، (صحیح مسلم:630:صحیح) پس اس بنا پر یہ قرأت ام المؤمنین عائشہ اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہما کی روایت والی یا تو لفظاً منسوخ کی جائے گی اور اگر واؤ کو مغائرت کیلئے مانا جائے تو لفظ و معنی دونوں کے اعتبار سے منسوخ کی جائے گی ، بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب کی نماز ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے لیکن اس کی سند میں کلام ہے ، بعض اور حضرات کا قول بھی یہی ہے اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ اور فرض نمازیں یا تو چار رکعت والی ہیں یا دو رکعت والی ، اور اس کی تین رکعتیں ہیں پس یہ درمیانہ نماز ٹھہری ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرض نمازوں کی یہ وتر ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی فضیلت میں بھی بہت کچھ حدیثیں وارد ہوئی ہیں ، بعض لوگ اس سے مراد عشاء کی نماز بھی بتلاتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں پانچ وقتوں میں سے ایک وقت کی نماز ہے لیکن ہم معین نہیں کر سکتے یہ مبہم ہے جس طرح لیلۃ القدر پورے سال میں یا پورے مہینے میں یا پچھلے دس دِنوں میں مبہم ہے ۔ بعض حضرات فرماتے ہیں پانچوں نمازوں کا مجموعہ مراد ہے اور بعض کہتے ہیں یہ عشاء اور صبح ہے ۔ بعض کا قول ہے یہ جماعت کی نماز ہے بعض کہتے ہیں جمعہ کی نماز ہے ، کوئی کہتا ہے صلوٰۃ خوف مراد ہے ، کوئی کہتا ہے نمازِ عید مراد ہے ، کوئی کہتا ہے صلوٰۃ ضحیٰ مراد ہے ، بعض کہتے ہیں ہم توقف کرتے ہیں اور کسی قول کے قائل نہیں بنتے ، اس لیے کہ دلیلیں مختلف ہیں ، وجہ ترجیح معلوم نہیں ، کسی قول پر اجماع ہوا نہیں بلکہ زمانہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک جھگڑا جاری رہا ۔ جس طرح سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بارے میں اس طرح مختلف تھے پھر انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھائیں ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ پچھلے اقوال سب کے سب ضعیف ہیں ، جھگڑا صرف صبح اور عصر کی نماز میں ہے اور صحیح احادیث سے عصر کی نماز کا صلوٰۃ وسطیٰ ہونا ثابت ہے پس لازم ہو گیا کہ ہم سب اقوال کو چھوڑ کر یہی عقیدہ رکھیں کہ صلوٰۃ وسطیٰ نمازِ عصر ہے ۔ امام ابومحمد عبدالرحمٰن بن ابوحاتم رازی رحمہم اللہ نے اپنی کتاب فضائل شافعی میں روایت کی ہے کہ امام صاحب فرمایا کرتے تھے حدیث «کل ماقلت فکان عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بخلاف قولی مما یصح فحدیث النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اولیٰ ولا تقلدونی» یعنی میرے جس کسی قول کیخلاف کوئی صحیح حدیث شریف مروی ہو تو حدیث ہی اولیٰ ہے خبردار میری تقلید نہ کرنا ، امام شافعی رحمہ اللہ کے اس فرمان کو امام ربیع امام زعفرانی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی روایت کرتے ہیں ، اور موسیٰ ابوالولید جارود رحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا «اذا صح الحدیث و قلت قولا فانا راجع عن قولی و قائل بذالک» یعنی میری جو بات حدیث شریف کیخلاف ہو ، میں اپنی اس بات سے رجوع کرتا ہوں اور صاف کہتا ہوں کہ میرا مذہب وہی ہے جو حدیث میں ہو ، یہ امام صاحب کی امانت اور سرداری ہے اور آپ جیسے ائمہ کرام میں سے بھی ہر ایک نے یہی فرمایا ہے کہ ان کے اقوال کو دین نہ سمجھا جائے ۔ رحمھم اللہ و رضی عنہم اجمعین اسی لیے قاضی ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام صاحب کا صلوٰۃ وسطیٰ کے بارے میں یہی مذہب سمجھنا چاہیئے کہ وہ عصر ہے ، گو امام صاحب کا اپنا قول یہ ہے کہ وہ عصر نہیں ہے مگر آپ رحمہ اللہ کے اس فرمان کے مطابق حدیث صحیح کے خلاف اس قول کو پا کر ہم نے چھوڑ دیا ۔ شافعی مذہب کے اور بھی بہت سے محدثین نے یہی فرمایا ہے فالحمدللہ بعض فقہاء شافعی تو کہتے ہیں کہ امام صاحب کا صرف ایک ہی قول ہے کہ وہ صبح کی نماز ہے لیکن یہ سب باتیں طے کرنے کیلئے تفسیر مناسب نہیں ، علیحدہ اس کا بیان میں نے کر دیا ہے «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع خضوع ، ذلت اور مسکینی کے ساتھ کھڑے ہوا کرو جس کو یہ لازم ہے کہ انسانی بات چیت نہ ہو اسی لیے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے سلام کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں نہ دیا اور بعد میں فراغت فرمایا کہ نماز مشغولیت کی چیز ہے۔(صحیح بخاری:1199) اور سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ سے جبکہ انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے بات کی تو فرمایا نماز میں انسانی بات چیت نہ کرنی چاہیئے یہ تو صرف تسبیح اور ذِکر اللہ ہے ۔(صحیح مسلم:537:صحیح) مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے لوگ ضروری بات چیت بھی نماز میں کر لیا کرتے تھے ، جب یہ آیت اتری تو چپ رہنے کا حکم دے دیا گیا ،(مسند احمد:368/4:صحیح) لیکن اس حدیث میں ایک اشکال یہ ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک نماز میں بات چیت کرنے کی حرمت حبشہ کی ہجرت کے بعد اور مدینہ شریف کی ہجرت سے پہلے ہی مکہ شریف میں نازل ہو چکی تھی ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حبشہ کی ہجرت سے پہلے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے آپ نماز میں ہوتے پھر بھی جواب دیتے ، جب حبشہ سے ہم واپس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے آپ کی نماز کی حالت میں ہی سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا ، اب میرے رنج و غم کا کچھ نہ پوچھئے نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا عبداللہ رضی اللہ عنہما اور کوئی بات نہیں میں نماز میں تھا اس وجہ سے میں نے جواب نہ دیا ، اللہ جو چاہے نیا حکم اتارے ، اس نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ نماز میں نہ بولا کرو ، (سنن ابوداود:924 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے کا ہے اور یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، اب بعض تو کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب جنس کلام سے ہے اور اس کی حرمت پر اس آیت سے استدلال بھی خود ان کا فہم ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، بعض کہتے ہیں ممکن ہے دو دفعہ حلال ہوا ہو اور دو دفعہ ممانعت ہوئی ہو لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما والی روایت جو ابویعلیٰ میں ہے اس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نہ دینے سے مجھے یہ خوف ہوا کہ شاید میرے بارے میں کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فارغ ہو کر حدیث «وعلیک اسلام ایھا المسلم و رحمتہ اللہ» نماز میں جب تم ہو تو خاموش رہا کرو ۔ (میزان:204/1:منقطع و ضعیف) چونکہ نمازوں کی پوری حفاظت کرنے کا فرمان صادر ہو چکا تھا اس لیے اب اس حالت کو بیان فرمایا جاتا جس میں تمام ادب و آداب کی پوری رعایت عموماً نہیں رہ سکتی ، یعنی میدان جنگ میں جبکہ دشمن سر پر ہو تو فرمایا کہ جس طرح ممکن ہو سوار پیدل قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کر لیا کرو ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس آیت کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں بلکہ نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں تو جانتا ہوں یہ مرفوع ہے ، (صحیح بخاری:4535:صحیح) مسلم شریف میں ہے سخت خوف کے وقت اشارے سے ہی نماز پڑھ لیا کرو ، گو سواری پر سوار ہو ، سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن سفیان کے قتل کیلئے بھیجا تھا تو آپ نے اسی طرح نماز عصر اشارے سے ادا کی تھی ۔ (سنن ابوداود:1249 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پس اس میں جناب باری نے اپنے بندوں پر بہت آسانی کر دی اور بوجھ کو ہلکا کر دیا ، صلوٰۃ خوف ایک رکعت پڑھنی بھی آئی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر کی حالت میں چار رکعتیں فرض کی ہیں اور سفر کی حالت میں دو اور خوف کی حالت میں ایک ۔ (صحیح مسلم:687:صحیح) امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ اس وقت ہے جب بہت زیادہ خوف ہو ، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما اور بہت سے اور بزرگ صلوٰۃ خوف ایک رکعت بتاتے ہیں ، امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے کہ فتوحات قلعہ کے موقع پر اور دشمن کے مڈبھیڑ کے موقع پر نماز ادا کرنا ۔ اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر فتح قریب آ گئی ہو اور نماز پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو ہر شخص اپنے طور پر اشارے سے نماز پڑھ لے ، اگر اتنا وقت بھی نہ ملے تو تاخیر کریں یہاں تک کہ لڑائی ختم ہو جائے اور چین نصیب ہو تو دو رکعتیں ادا کر لیں ورنہ ایک رکعت کافی ہے لیکن صرف تکبیر کہہ لینا کافی نہیں بلکہ تاخیر کر دیں یہاں تک کہ امن ملے ، مکحول رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تستر قلعہ کی لڑائی میں میں بھی فوج میں تھا ، صبح صادق کے وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ، ہمیں وقت ہی نہ ملا کہ نماز ادا کرتے ، خوب دن چڑھے اس دن ہم نے صبح کی نماز پڑھی ، اگر اس نماز کے بدلے میں مجھے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے مل جائے تاہم میں خوش نہیں ہوں ، (صحیح بخاری:944) بعد ازاں امام المحدثین نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگ خندق میں سورج غروب ہو جانے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز نہ پڑھ سکے ، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بنی قریظہ کی طرف بھیجا تو ان سے فرما دیا تھا کہ تم میں سے کوئی بھی بنی قریظہ سے ورے نماز عصر نہ پڑھے ، اب جبکہ نماز عصر کا وقت آ گیا تو بعض نے تو وہیں پڑھی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا ، وہیں جا کر نماز پڑھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی کچھ نہیں کہا ، (المرجع السابق) پس اس سے امام بخاری یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں گو جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں سورۃ نساء میں جو نماز خوف کا حکم ہے اور جس نماز کی مشروعیت اور طریقہ احادیث میں وارد ہوا ہے وہ جنگ خندق کے بعد کا ہے جیسا کہ ابوسعید وغیرہ کی روایت میں صراحتاً بیان ہے ، لیکن امام بخاری امام مکحول اور امام اوزاعی رحمہ اللہ علیہم کا جواب یہ ہے کہ اس کی مشروعیت بعد میں ہونا اس جواز کیخلاف نہیں ، ہو سکتا ہے کہ یہ بھی جائز ہو اور وہ بھی طریقہ ہو ، کیونکہ ایسی حالت میں شاذو نادر کبھی ہی ہوتی ہے اور خود صحابہ رضی اللہ عنہم نے فاروق اعظم کے زمانے میں فتح تستر میں اس پر عمل کیا اور کسی نے انکار نہیں کیا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمان ہے کہ امن کی حالت میں بجا آوری کا پورا خیال رکھو ، جس طرح میں نے تمہیں ایمان کی راہ دکھائی اور جُہل کے بعد علم دیا تو تمہیں بھی چاہیئے کہ اس کے شکریہ میں ذکر اللہ باطمینان کیا کرو ، جیسا کہ نماز خوف کا بیان کر کے فرمایا جب اطمینان ہو جائے تو نمازوں کو اچھی طرح قائم کرو ، نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے ، صلوٰۃ خوف کا پورا بیان سورۃ نساء کی آیت «وَإِذَا کُنتَ فِیہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ» ( 4-النسأ : 102 ) کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔