الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ
وہ جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمھارے لیے اس میں راستے جاری کیے اور آسمان سے کچھ پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ کئی قسمیں مختلف نباتات سے نکالیں۔
اللہ رب العزت کا تعارف موسیٰ علیہ السلام فرعون کے سوال کے جواب میں اوصاف الٰہی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسی اللہ نے زمین کو لوگوں کے لیے فرش بنایا ہے ۔ «مَہْدًا» کی دوسری قرأت «مھَادًا» ہے ۔ زمین کو اللہ تعالیٰ نے بطور فرش کے بنا دیا ہے کہ تم اس پر قرار کئے ہوئے ہو ، اسی پر سوتے بیٹھتے رہتے سہتے ہو ۔ «وَجَعَلْنَا فِیہَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہُمْ یَہْتَدُونَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:31) ’ اس نے زمین میں تمہارے چلنے پھرنے اور سفر کرنے کے لیے راہیں بنا دی ہیں تاکہ تم راستہ نہ بھولو ۔ ‘ اور منزل مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکو ۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کی پیداوار اگاتا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، میوے ، قسم قسم کے ذائقے دار کہ تم خود کھا لو اور اپنے جانوروں کو چارہ بھی دو ۔ تمہارا کھانا اور میوے ، تمہارے جانوروں کا چارا ، خشک اور تر سب اسی سے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے ۔ جن کی عقلیں صحیح سالم ہیں ، ان کے لیے تو قدرت کی یہ تمام نشانیاں دلیل ہیں اللہ کی الوہیت ، اس کی وحدانیت اور اس کے وجود پر ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا فرمایا ہے ، تمہاری ابتداء اسی سے ہے ۔ اس لیے کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی پیدائش اسی سے ہوئی ہے ۔ اسی میں تمہیں پھر لوٹنا ہے ، مر کر اسی میں دفن ہونا ہے ، اسی سے پھر قیامت کے دن کھڑے کئے جاؤ گے ۔ «یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ وَتَظُنٰونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا » ۱؎ (17-الإسراء:52) ’ ہماری پکار پر ہماری تعریفیں کرتے ہوئے اٹھو گے اور یقین کر لو گے کہ تم بہت ہی تھوڑی دیر رہے ۔ ‘ جیسے اور آیت میں ہے کہ «قَالَ فِیہَا تَحْیَوْنَ وَفِیہَا تَمُوتُونَ وَمِنْہَا تُخْرَجُونَ » ۱؎ (7-الأعراف:25) ’ اسی زمین پر تمہاری زندگی گزرے گی ، مر کر بھی اسی میں جاؤ گے ، پھر اسی میں سے نکالے جاؤ گے ۔‘ سنن کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کے دفن کے بعد اس کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے پہلی بار فرمایا « مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ » دوسری لپ ڈالتے ہوئے فرمایا « وَفِیہَا نُعِیدکُمْ» تیسری بار فرمایا « وَمِنْہَا نُخْرِجکُمْ تَارَۃ أُخْرَی» ۔ } الغرض فرعون کے سامنے دلیلیں آ چکیں ، اس نے معجزے اور نشان دیکھ لیے لیکن سب کا انکار اور تکذیب کرتا رہا ، کفر ، سرکشی ، ضد اور تکبر سے باز نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے«وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (27-النمل:14) ’ یعنی باوجود یہ کہ ان کے دلوں میں یقین ہو چکا تھا لیکن تاہم ازراہ ظلم و زیادتی انکار سے باز نہ آئے ۔ ‘