وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ۔ اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب کبھی بھولنے والا نہیں۔
جبرائیل علیہ السلام کی آمد میں تاخیر کیوں؟ صحیح بخاری شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا : { آپ جتنا آتے ہیں ، اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ } } اس کے جواب میں یہ آیت اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3218) یہ بھی مروی ہے کہ { ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں بہت تاخیر ہو گئی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے ۔ پھر آپ علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23807:ضعیف) روایت ہے کہ { بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے ۔ جب آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ، { اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ } مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:23811:ضعیف) پس گویا یہ آیت سورۃ والضحی کی آیت جیسی ہے ۔ کہتے ہیں کہ { چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میرا شوق تو بہت ہی بے چین کئے ہوئے تھا } ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ، ” اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں ، اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:103/16:ضعیف) لیکن یہ روایت غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رک جانے کی وجہ دریافت کی ، آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں ، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں ، مونچھیں پست نہ کرائیں ، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی } ۔ ۱؎ (الواحدی:607:ضعیف) مسند امام احمد میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا { مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کر لو آج وہ فرشتہ آ رہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:296/6:ضعیف) ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں ۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں ۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی یاد سے فراموش نہیں کیا ۔ نہ اس کی یہ صفت ۔ جیسے فرمان «وَالضٰحَیٰ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَیٰ مَا وَدَّعَکَ رَبٰکَ وَمَا قَلَیٰ» ۱؎ (93-الضحی:3-1) ’ قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا وہ حلال ہے اور جو حرام کر دیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کر لو ، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جملہ تلاوت فرمایا } } ۔ ۱؎ (فتح الباری:266/13:قال الشیخ الألبانی:حسن) آسمان و زمین اور ساری مخلوق کا خالق ، مالک ، مدبر ، متصرف وہی ہے ۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے ۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ ۔ اس کے مثیل ، شبیہ ، ہم نام ، ہم پلہ کوئی نہیں ۔ وہ با برکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ ۔