وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقیناً ایک مومن لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھی لگے اور نہ (اپنی عورتیں) مشرک مردوں کے نکاح میں دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقیناً ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھا معلوم ہو۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
پاک دامن عورتیں بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے ، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے آیت «وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ» ( 5 ۔ المائدہ : 5 ) ، یعنی تم سے پہلے جو لوگ کتاب اللہ دئیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتوں سے بھی جو زناکاری سے بچنے والی ہوں ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرنا تمہارے لیے حلال ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں ، (تفسیر ابن جریر الطبری:350/4) مجاہد عکرمہ ، سعید بن جبیر ، مکحول ، حسن ، ضحاک ، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:669/2:) بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لیے نازل ہوئی ہے جیسے بھی کہہ لیں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایماندار ، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصاً ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں ۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت «وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ۡ وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ» ( 5 ۔ المائدہ : 5 ) ، یعنی کافروں کے اعمال برباد ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں ، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمومنین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہیئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور اس ذلت کے ساتھ انہیں الگ کروں گا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:4224:ضعیف) لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بالکل ہی غریب ہے ، امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بے رغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چنانچہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ رضی اللہ عنہ اسے حرام کہتے ہیں ، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مومن عورتوں سے نکاح نہ کرو ؟ اس روایت کی سند بھی صحیح ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:366/4) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہو سکتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:366/4) اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے ، ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر لیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4227:ضعیف) لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر امت کا اجماع اسی پر ہے ، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی ، امام بخاری سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس کے اللہ ہیں ۔ (صحیح بخاری:5285) امام احمد رحمہ اللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے یہ فرمان سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوتا ہے ، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آ کر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس کا کیا خیال کہا حضور ! وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوعبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کر لوں گا چنانچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا ، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزار ہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:4228) مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کر لیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے ، (سنن ابن ماجہ:1859 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے ، بخاری مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے ایک تو مال دوسرے حسب نسب تیسرے جمال وخوبصورتی چوتھے دین ، تم دینداری ٹٹولو ، (صحیح بخاری:5090) مسلم شریف میں ہے دنیا کل کی کل ایک متاع ہے ، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے ۔ (صحیح مسلم:1469) پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دو جیسے اور جگہ ہے آیت «لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلٰوْنَ لَہُنَّ» ( 60 ۔ الممتحنہ : 10 ) ، نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لیے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لیے حلال ۔ پھر فرمان ہے کہ مومن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے ۔ ان لوگوں کا میل جول ان کی صحبت ، محبت دنیا حفاظتِ دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینی سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ ونصیحت اور پند وعبرت کے لیے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں ۔