يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے ہیں اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا چیز خرچ کریں، کہہ دے جو بہترین ہو۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور و فکر کرو۔
حرمت شراب کیوں؟ جب شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ البقرہ کی یہ آیت «یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَیْسِرِ» ( 2 ۔ البقرہ : 219 ) ، نازل ہوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لیے اور زیادہ صاف بیان فرما اس پر سورۃ نساء کی آیت «یٰٓاَیٰھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا» ( 4 ۔ النسآء : 43 ) ، نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ رضی اللہ عنہما نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لیے اس کا بیان اور واضح کر ۔ اس پر سورۃ المائدہ کی آیت «إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلَاۃِ فَہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» ( 5 ۔ المائدہ : 91 ) ، جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ «ہَلْ أَنتُم مٰنتَہُونَ» پڑے تو آپ رضی اللہ عنہما بول اٹھے «اِنْتَھَیّنَا اِنْتَھَیّنَا» ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ، (سنن ترمذی:3049 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابومیسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے ، ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت نہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی سند صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے «اِنْتَھَیّنَا اِنْتَھَیّنَا» کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما والی اور روایتیں سورۃ المائدہ کی آیت «إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» ( 5 ۔ المائدہ : 90 ) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی ان شاءاللہ تعالیٰ ، امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورۃ المائدہ میں ہی آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ میسر کہتے ہیں جوئے بازی کو گناہ کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں ، اسی طرح اس کی خرید و فروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے ۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے ، لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا ، ہوش و حواس کا بے کار ہونا ضروری ہے ، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے ، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو ، چنانچہ آخرکار سورۃ المائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں ، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آ جاؤ ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت و بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے ؟ اس کا پورا بیان ان شاءاللہ سورۃ المائدہ میں آئے گا ، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی ، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ المائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:331/4) عفو اور اس کی وضاحتیں «قُلِ الْعَفْوَ» کی ایک قرأت «قُلِ الْعَفْوُ» بھی ہے اور دونوں قرأتیں ٹھیک ہیں معنی قریب قریب اور ایک ہو سکتے ہیں اور بندھی بیٹھ سکتے ہیں ، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ثعلبہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے غلام بھی ہیں بال بچے بھی ہیں اور ہم مالدار بھی ہیں کیا کچھ اللہ کی راہ میں دیں ؟ جس کے جواب میں آیت «قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ» ( البقرہ : 219 ) کہا گیا ۔ (الدار المنثور::453/1) یعنی جو اپنے بال بچوں کے خرچ کے بعد بچے ، بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے ، طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر چیز میں تھوڑا تھوڑا اللہ کی راہ بھی دیتے رہا کرو ، ربیع رحمہ اللہ کہتے ہیں افضل اور بہتر مال اللہ کی راہ میں دو ، سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاجت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایسا نہ کرو کہ سب دے ڈالو اور پھر خود سوال کے لیے بیٹھ جاؤ ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے کام میں لاؤ ، کہا میرے پاس ایک اور ہے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کرو کہا ایک اور ہے فرمایا اپنے بچوں کی ضروریات پر لگاؤ کہا ایک اور بھی ہے فرمایا اسے تو اپنی عقل سے خود بھی خرچ کر سکتا ہے ۔ (سنن ابوداود:1691 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا اپنے نفس سے شروع کر پہلے اسی پر صدقہ کر پھر تو اپنے بال بچوں پر پھر بچے تو اپنے رشتہ داروں پر پھر تو اور حاجت مندوں پر ، (صحیح مسلم:997) اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خیرات وہ ہے جو انسان اپنے خرچ کے مطابق باقی رکھ کر بچی ہوئی چیز کو اللہ کی راہ میں دے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ، پہلے انہیں دے جن کا خرچ تیرے ذمہ ہے (صحیح بخاری:5355) ایک اور حدیث میں ہے اے ابن آدم جو تیرے پاس اپنی ضرورت سے زائد ہو اسے اللہ کی راہ میں دے ڈالنا ہی تیرے لیے بہتر ہے اس کا روک رکھنا تیرے لیے برا ہے ہاں اپنی ضرورت کے مطابق خرچ کرنے میں تجھ پر کوئی ملامت نہیں ۔ (صحیح مسلم:1036) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ یہ حکم زکوٰۃ کے حکم سے منسوخ ہو گیا ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کی آیت گویا اس آیت کی تفسیر ہے اور اس کا واضح بیان ہے ، ٹھیک قول یہی ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ جس طرح یہ احکام واضح کر کے کھول کھول کر ہم نے بیان فرمائے اسی طرح ہم باقی احکام بھی وضاحت اور تشریح کے ساتھ بیان فرمائیں گے ، وعدے وعید بھی صاف طور پر کھول دئیے جائیں گے تاکہ تم دنیائے فانی کی طرف بیرغبت ہو کر آخرت کی طرف متوجہ ہو جاؤ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ، حضرت حسن رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ جو غور و تدبر کرے گا جان لے گا کہ دنیا بلا کا گھر ہے اور اس کا انجام فنا ہے اور آخرت جزا اور بقا کا گھر ہے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فکر کرنے سے صاف معلوم ہو سکتا ہے کہ دنیا پر آخرت کو کس قدر فضیلت ہے پس عقلمند کو چاہیئے کہ آخرت کی بھلائی کے جمع کرنے کی کوشش میں لگ جائے ۔ یتیم کا مال اور ہماری ذمہ داری پھر یتیم کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پہلے یہ حکم ہوا تھا کہ آیت «وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ» ( 6 ۔ الانعام : 152 ) یعنی یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو اور فرمایا گیا تھا آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا» ( 4 ۔ النسآء : 10 ) ۔ یعنی جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی جہنم میں عنقریب داخل ہوں گے تو ان آیتوں کو سن کر ان لوگوں نے جو یتیموں کے والی تھے یتیموں کا کھانا اور ان کا پانی اپنے گھر کے کھانے اور گھر کے پانی سے بالکل جدا کر دیا اب اگر ان کا پکا ہوا کھانا بچ جاتا تو اسے یا تو وہ خود ہی دوسرے وقت کھائے یا خراب ہو جائے تو یوں ایک طرف تو ان یتیموں کا نقصان ہونے لگا دوسری جانب والیانِ یتیم بھی تنگ آ گئے کہ کب تک ایک ہی گھر میں اس طرح رکھ رکھاؤ کیا کریں تو ان لوگوں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی جس پر یہ آیت «قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 220 ) نازل ہوئی اور نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ ان کے مال کو اپنے مال میں ملا لینے کی رخصت دی گئی ، (سنن ابوداود:2871 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) ابوداؤد ونسائی وغیرہ میں یہ روایتیں موجود ہیں اور سلف وخلف کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس کا شان نزول یہی بیان فرمایا ہے ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں یتیم کے مال کی اس طرح دیکھ بھال سخت مشکل ہے کہ اس کا کھانا الگ ہو ، اس کا پینا الگ ہو ۔ «اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ» ( البقرہ : 220 ) سے تو یہی علیحدگی مراد ہے لیکن پھر «وَاِنْ تُخَالِطُوْھُمْ» ( البقرہ : 220 ) فرما کر اس کا کھانا پینا ملا جلا رکھنے کی اجازت دی گئی اس لیے کہ وہ بھی دینی بھائی ہیں یا نیت نیک ہونی چاہیئے ۔ قصد اور ارادہ اگر یتیم کی نقصان رسانی کا ہے تو وہ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اور اگر مقصود یتیم کی بھلائی اور اس کے مال کی نگہبانی ہے تو اسے بھی وہ علام الغیوب بخوبی جانتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تکلیف و مشقت میں مبتلا رکھنا نہیں چاہتا جو تنگی اور حرج تم پر یتیم کا کھانا پینا بالکل جدا رکھنے میں تھا وہ اللہ تعالیٰ نے دور فرما دیا اور تم پر تخفیف کر دی اور ایک ہنڈیا رکھنا اور ملا جلا کام کرنا تمہارے لیے مباح قرار دیا ، بلکہ یتیم کا نگران اگر تنگ دست مسکین محتاج ہو تو دستور کے مطابق اپنے خرچ میں لا سکتا ہے ، اور اگر کسی مالدار نے اپنے بوقت ضرورت اس کی چیز کام میں لے لی تو پھر ادا کر دے ، یہ مسائل ان شاءاللہ وضاحت کے ساتھ سورۃ نساء کی تفسیر میں بیان ہوں گے ۔