سورة البقرة - آیت 214

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی؟ سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ہم سب کو آزمائش سے گزرنا ہے مطلب یہ ہے کہ آزمائش اور امتحان سے پہلے جنت کی آرزوئیں ٹھیک نہیں اگلی امتوں کا بھی امتحان لیا گیا ، انہیں بھی بیماریاں مصیبتیں پہنچیں ، «بأساء» کے معنی فقیری (تفسیر ابن ابی حاتم:217/2) «وضراء» کے معنی سخت بیماری بھی کیا گیا ہے ۔ «وَزُلْزِلُوا» ان پر دشمنوں کا خوف اس قدر طاری ہوا کہ کانپنے لگے ان تمام سخت امتحانوں میں وہ کامیاب ہوئے اور جنت کے وارث بنے ، صحیح حدیث میں ہے ایک مرتبہ سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہماری امداد کی دعا نہیں کرتے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس ابھی سے گھبرا اٹھے سنو تم سے اگلے موحدوں کو پکڑ کر ان کے سروں پر آرے رکھ دئیے جاتے تھے اور چیر کر ٹھیک دو ٹکڑے کر دئیے جاتے تھے لیکن تاہم وہ توحید وسنت سے نہ ہٹتے تھے ، لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت پوست نوچے جاتے تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے دین کو نہیں چھوڑتے تھے ، قسم اللہ کی اس میرے دین کو تو میرا رب اس قدر پورا کرے گا کہ بلا خوف وخطر صنعاء سے حضر موت تک سوار تنہا سفر کرنے لگے گا اسے سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہو گا ، البتہ دل میں یہ خیال ہونا اور بات ہے کہ کہیں میری بکریوں پر بھیڑیا نہ پڑے لیکن افسوس تم جلدی کرتے ہو ، (صحیح بخاری:6943) قرآن میں ٹھیک یہی مضمون دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ آیت «الم ، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِینَ» ( 29 ۔ العنکبوت : 3-1 ) کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض ایمان کے اقرار سے ہی چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی ہم نے تو اگلوں کی بھی آزمائش کی سچوں کو اور جھوٹوں کو یقیناً ہم نکھار کر رہیں گے ، چنانچہ اسی طرح صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کی پوری آزمائش ہوئی یوم الاحزاب کو یعنی جنگ خندق میں ہوئی جیسے خود قرآن پاک نے اس کا نقشہ کھینچا ہے فرمان ہے آیت «إِذْ جَاءُوکُم مِّن فَوْقِکُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنٰونَ بِ اللہِ الظٰنُونَا ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْزَالًا شَدِیدًا وَإِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُولُہُ إِلَّا غُرُورًا» ( 33-الأحزاب : 10 - 12 ) یعنی جبکہ کافروں نے تمہیں اوپر نیچے سے گھیر لیا جبکہ آنکھیں پتھرا گئیں اور دل حلقوم تک آ گئے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ گمان ہونے لگے اس جگہ مومنوں کی پوری آزمائش ہو گئی اور وہ خوب جھنجھوڑ دئیے گئے جبکہ منافقوں کو اور ڈھل مل گئی یقیناً لوگ کہنے لگے کہ اللہ رسول کے وعدے تو غرور کے ہی تھے ۔ ہرقل نے جب ابوسفیان سے ان کے کفر کی حالت میں پوچھا تھا کہ تمہاری کوئی لڑائی بھی اس دعویدار نبوت سے ہوئی ہے ابوسفیان نے کہا ہاں پوچھا پھر کیا رنگ رہا کہا کبھی ہم غالب رہے کبھی وہ غالب رہے تو ہرقل نے کہا انبیاء علیہم السلام کی آزمائش اسی طرح ہوتی رہتی ہے لیکن انجام کار کھلا غلبہ انہیں کا ہوتا ہے ۔ (صحیح بخاری:7) مثل کے معنی طریقہ کے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «فَأَہْلَکْنَا أَشَدَّ مِنْہُم بَطْشًا وَمَضَیٰ مَثَلُ الْأَوَّلِینَ» ( 43 ۔ الزخرف : 8 ) ، اگلے مومنوں نے مع نبیوں کے ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کی اور سخت اور تنگی سے نجات چاہی جنہیں جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ کی امداد بہت ہی نزدیک ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا» ( 94 ۔ الشرح : 6-5 ) ، یقیناً سختی کے ساتھ آسانی ہے برائی کے ساتھ بھلائی ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ بندے جب ناامید ہونے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تعجب کرتا ہے کہ میری فریاد رسی تو آپہنچنے کو ہے اور یہ ناامید ہوتا چلا جا رہا ہے پس اللہ تعالیٰ ان کی عجلت اور اپنی رحمت کے قرب پر ہنس دیتا ہے ۔ (مسند احمد:11/4:ضعیف)