وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُم بِرِزْقٍ مِّنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا
اور اسی طرح ہم نے انھیں اٹھایا، تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کتنی دیر رہے؟ انھوں نے کہا ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے، دوسروں نے کہا تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت تم رہے ہو، پس اپنے میں سے ایک کو اپنی یہ چاندی دے کر شہر کی طرف بھیجو، پس وہ دیکھے کہ اس میں کھانے کے لحاظ سے زیادہ ستھرا کون ہے، پھر تمھارے پاس اس سے کچھ کھانا لے آئے اور نرمی و باریک بینی کی کوشش کرے اور تمھارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔
موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ، کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا ۔ آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لیے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لیے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ، کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت «وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ» ( 24- النور : 21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی» ( 87- الأعلی : 14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں «زکا الزرع» اور جیسے شاعر کا قول ہے «قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ» «واسبع ازکی من ثلاث واطیب» پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے ۔ لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لیے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہیئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے ۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے کہ یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لیے محال ہو جائے گا ۔