قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا
کہہ دے تم اس پر ایمان لاؤ، یا ایمان نہ لاؤ، بے شک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا، جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں۔
سماعت قرآن عظیم کے بعد فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں ، تم مانو یا نہ مانو ، قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بیشک بر حق ہے ۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آرہا ہے ۔ جو اہل کتاب صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں ، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی ، وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بے چین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا ۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، غلط نہیں ہوتا ۔ آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں ۔ خشوع و خضوع ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑ گڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ ایمان و تصدیق اور کلام الٰہی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان و اسلام میں ، ہدایت و تقویٰ میں ، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے ، سجدے کا سجدے پر نہیں ۔