وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے آدم کی اولاد کو بہت عزت بخشی اور انھیں خشکی اور سمندر میں سوار کیا اور انھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی اس میں سے بہت سوں پر انھیں فضیلت دی، بڑی فضیلت دینا۔
انسان پر اللہ کے انعامات سب سے اچھی پیدائش انسان کی ہے جیسے فرمان ہے «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ » ۱؎ (95-التین:4) ’ ہم نے انسان کو بہترین صفت پر پیدا کیا ہے ۔ ‘ وہ اپنے پیروں پر سیدھا کھڑا ہوکر صحیح چال چلتا ہے ، اپنے ہاتھوں سے تمیز کے ساتھ اپنی غذا کھاتا ہے اور حیوانات ہاتھ پاؤں سے چلتے ہیں منہ سے چارہ چگتے ہیں ۔ پھر اسے سمجھ بوجھ دی ہے جس سے نفع نقصان بھلائی برائی سوچتا ہے ، دینی دنیاوی فائدہ معلوم کر لیتا ہے ۔ اس کی سواری کے لیے خشکی میں جانور چوپائے گھوڑے خچر اونٹ وغیرہ اور تری کے سفر کے لیے اسے کشتیاں بنانی سکھا دیں ۔ اسے بہترین ، خوشگوار اور خوش ذائقہ کھانے پینے کی چیزیں دیں ۔ کھیتیاں ہیں ، پھل ہیں ، گوشت ہیں ، دودھ ہے اور بہترین بہت سی ذائقے دار لذیذ مزیدار چیزیں ۔ پھر عمدہ مکانات رہنے کو ، اچھے خوشنما لباس پہننے کو ، قسم قسم کے ، رنگ برنگ کے ، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی چیزیں یہاں لے جانے لے آنے کے اسباب اس کے لیے مہیا کر دیئے اور مخلوق میں سے عموماً ہر ایک پر اسے برتری بخشی ۔ ُاس آیت کریمہ سے امر پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے ۔ زید بن اسلم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرشتوں نے کہا اے اللہ تو نے اولاد آدم کو دنیا دے رکھی ہے کہ وہ کھاتے پیتے ہیں اور موج مزے کر رہے ہیں تو تو اس کے بدلے ہمیں آخرت میں ہی عطا فرما کیونکہ ہم اس دنیا سے محروم ہیں ۔ اس کے جواب میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم اس کی نیک اولاد کو جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کے برابر میں ہرگز نہ کروں گا جسے میں نے کلمہ کن سے پیدا کیا ہے ۔ یہ روایت مرسل ہے لیکن اور سند سے متصل بھی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:126/15) ابن عساکر میں ہے کہ فرشتوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہمیں بھی تو نے پیدا کیا اور بنو آدم کا خالق بھی تو ہی ہے ، انہیں تو کھانا پینا دے رہا ہے ، کپڑے لتے وہ پہنتے ہیں ، نکاح شادیاں وہ کرتے ہیں ، سواریاں ان کے لیے ہیں ، راحت و آرام انہیں حاصل ہے ، ان میں سے کسی چیز کے حصے دار ہم نہیں ۔ خیر یہ اگر دنیا میں ان کے لیے ہے تو یہ چیزیں آخرت میں تو ہمارے لیے کر دے ۔ اس کے جواب میں جناب باری تعالیٰ نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اور اپنی روح جس میں میں نے پھونکی ہے اسے میں اس جیسا نہ کروں گا جسے میں نے کہہ دیا کہ ہو جا وہ ہو گیا ۔ ۱؎ (طبرانی اوسط:6173:ضعیف) طبرانی میں ہے قیامت کے دن ابن آدم سے زیادہ بزرگ اللہ کے ہاں کوئی نہ ہو گا ۔ پوچھا گیا کہ فرشتے بھی نہیں ؟ فرمایا فرشتے بھی نہیں وہ تو مجبور ہیں جیسے سورج چاند ۔ ۱؎ (بیہقی فی شعب الایمان:153:ضعیف) یہ روایت بہت ہی غریب ہے ۔