وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
اور اس چیز کا پیچھا نہ کر جس کا تجھے کوئی علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔
بلا تحقیق فیصلہ نہ کرو یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس میں زبان نہ ہلاؤ ۔ بغیر علم کے کسی کی عیب جوئی اور بہتان بازی نہ کرو ۔ جھوٹی شہادتیں نہ دیتے پھرو ۔ بن دیکھے نہ کہہ دیا کرو کہ میں نے دیکھا ، نہ بےسنے سننا بیان کرو ، نہ بےعلمی پر اپنا جاننا بیان کرو ۔ کیونکہ ان تمام باتوں کی جواب دہی اللہ کے ہاں ہو گی ۔ غرض وہم خیال اور گمان کے طور پر کچھ کہنا منع ہو رہا ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ» ۱؎ (49-الحجرات:12) ’ زیادہ گمان سے بچو ، بعض گمان گناہ ہیں ۔ ‘ حدیث میں ہے { گمان سے بچو ، گمان بدترین جھوٹی بات ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6066) ابوداؤد کی حدیث میں ہے { انسان کا یہ تکیہ کلام بہت ہی برا ہے کہ لوگ خیال کرتے ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4972،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور حدیث میں ہے { بدترین بہتان یہ ہے کہ انسان جھوٹ موٹ کوئی خواب گھڑلے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7043) اور صحیح حدیث میں ہے { جو شخص ایسا خواب از خود گھڑلے قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ وہ دو جو کے درمیان گرہ لگائے اور یہ اس سے ہرگز نہیں ہونا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7042) قیامت کے دن آنکھ کان دل سب سے بازپرس ہو گی سب کو جواب دہی کرنی ہو گی ۔ یہاں «تِلْکَ» کی جگہ «أُولٰئِکَ» کا استعمال ہے ، عرب میں یہ استعمال برابر جاری ہے یہاں تک کہ شاعروں کے شعروں میں بھی ۔ مثلاً «ذم المنازل بعد منزلۃ اللوی والعیش بعد أولئک الأیام» ۔