وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا
اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کا سوال ہوگا۔
یتیم کا مال یتیم کے مال میں بد نیتی سے ہیر پھیر نہ کرو ، «وَلَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَہُمْ إِلَیٰ أَمْوَالِکُمْ ۚ إِنَّہُ کَانَ حُوبًا کَبِیرًا » ۱؎ (4-النساء:2) ان کے مال ان کی بلوغت سے پہلے صاف کر ڈالنے کے ناپاک ارادوں سے بچو ۔ «وَلَا تَأْکُلُوہَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن یَکْبَرُوا ۚ وَمَن کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن کَانَ فَقِیرًا فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ» ۱؎ (4-النساء:6) جس کی پرورش میں یہ یتیم بچے ہوں اگر وہ خود مالدار ہے تب تو اسے ان یتیموں کے مال سے بالکل الگ رہنا چاہیئے اور اگر وہ فقیر محتاج ہے تو خیر بقدر معروف کھالے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تو تجھے بہت کمزور دیکھ رہا ہوں اور تیرے لیے وہی پسند فرماتا ہوں ، جو خود اپنے لیے چاہتا ہوں ۔ خبردار کبھی دو شخصوں کا والی نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کا متولی بننا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1826) پھر فرماتا ہے وعدہ وفائی کیا کرو جو وعدے وعید جو لین دین ہو جائے اس کی پاسبانی کرو اس کی بابت قیامت کے دن جواب دہی ہو گی ۔ ناپ پیمانہ پورا پورا بھر کر دیا کرو لوگوں کو ان کی چیز گھٹا کر کم نہ دو ۔ «قِسْطَاسِ» کی دوسری قرأت «قَسْطَاسْ» بھی ہے پھر حکم ہوتا ہے بغیر پاسنگ کی صحیح وزن بتانے والی سیدھی ترازو سے بغیر ڈنڈی مارے تولا کرو ، دونوں جہان میں تم سب کے لیے یہی بہتری ہے ۔ دنیا میں بھی یہ تمہارے لین دین کی رونق ہے اور آخرت میں بھی یہ تمہارے چھٹکارے کی دلیل ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اے تاجرو تمہیں ان دو چیزوں کو سونپا گیا ہے جن کی وجہ سے تم سے پہلے کے لوگ برباد ہو گئے یعنی ناپ تول ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت رکھتے ہوئے صرف خوف اللہ سے اسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں اسے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22306:مرسل)