لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا کوئی فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اس کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمھیں ہدایت دی ہے اور بلاشبہ اس سے پہلے تم یقیناً گمراہوں سے تھے۔
تجارت اور حج صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز نامی بازار تھے اسلام کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم ایام حج میں تجارت کو گناہ سمجھ کر ڈرے تو انہیں اجازت دی گئی کہ ایام حج میں تجارت کرنا گناہ نہیں ، (صحیح بخاری:1770) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ مسئلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ حج کے دنوں میں احرام سے پہلے یا احرام کے بعد حاجی کے لیے خرید و فروخت حلال ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں آیت «من ربکم» کے بعد (فِی مَوَاسِمِ الْحَجَّ) کا لفظ بھی ہے ، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2771) دوسرے مفسرین نے بھی اس کی تفسیر اسی طرح کی ہے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ ایک شخص حج کو نکلتا ہے اور ساتھ ہی خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا جاتا ہے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:165/4) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ابوامامہ تیمی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم حج میں جانور کرایہ پر دیتے ہیں کیا ہمارا حج ہو جاتا ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کرتے ؟ کیا تم عرفات میں نہیں ٹھہرتے ؟ کیا تم شیطانوں کو کنکریاں نہیں مارتے ؟ کیا تم سر نہیں منڈواتے ؟ اس نے کہا یہ سب کام تو ہم کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سنو ایک شخص نے یہی سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور اس کے جواب میں جبرائیل علیہ السلام آیت «لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 198 ) لے کر اترے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم حاجی ہو تمہارا حج ہو گیا ۔ (مسند احمد:155/2:صحیح) مسند عبدالرزاق میں بھی یہ روایت ہے کہ اور تفسیر عبد بن حمید وغیرہ میں بھی ، بعض روایتوں میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی بھی ہے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کیا تم احرام نہیں باندھتے (ایضاً) امیرالمؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا آپ حضرات حج کے دنوں میں تجارت بھی کرتے تھے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور تجارت کا موسم ہی کون سا تھا ؟ (تفسیر ابن جریر الطبری:168/4) عرفات کو منصرف ( یعنی تصرف کر کے ) پڑھا گیا ہے حالانکہ اس کے غیر منصرف ہونے کے دو سبب اس میں موجود ہیں یعنی (اسم علم ) اور تانیث ، اس لیے کہ دراصل یہ جمع ہے جیسے مسلمات اور مومنات ایک خاص جگہ کا نام مقرر کر دیا گیا ہے اس لیے اصلیت کی رعایت کی گئی اور منصرف پڑھا گیا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:171/4) عرفہ وہ جگہ ہے جہاں کا ٹھہرنا حج کا بنیادی رکن ہے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حج عرفات ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا جو سورج نکلنے سے پہلے عرفات میں پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا ، منیٰ کے تین دنوں میں جلدی یا دیر کی جا سکتی ہے ، پر کوئی گناہ نہیں ، (سنن ابوداود:1949 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ٹھہرنے کا وقت عرفے کے دن سورج ڈھلنے کے بعد سے لے کر عید کی صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ظہر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک یہاں ٹھہرے رہے اور فرمایا تھا مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو ، (صحیح مسلم:1297) امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے کہ دسویں کی فجر سے پہلے جو شخص عرفات میں پہنچ جائے ، اس نے حج پا لیا ، امام احمد رحمہ اللہ ، فرماتے ہیں کہ ٹھہرنے کا وقت عرفہ کے دن کے شروع سے ہے ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں نماز کے لیے نکلے تو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں طی کی پہاڑیوں سے آ رہا ہوں اپنی سواری کو میں نے تھکا دیا اور اپنے نفس پر بڑی مشقت اٹھائی واللہ ہر ہر پہاڑ پر ٹھہرتا آیا ہوں کیا میرا حج ہو گیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمارے یہاں کی اس نماز میں پہنچ جائے اور ہمارے ساتھ چلتے وقت تک ٹھہرا رہے اور اس سے پہلے وہ عرفات میں بھی ٹھہر چکا ہو خواہ رات کو خواہ دن کو اس کا حج پورا ہو گیا اور وہ فریضہ سے فارغ ہو گیا ۔ (سنن ابوداود:1950 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے صحیح کہتے ہیں ، امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور انہوں نے آپ علیہ السلام کو حج کرایا جب عرفات میں پہنچے تو پوچھا کہ ( عرفت ) کیا تم نے پہچان لیا ؟ خلیل اللہ نے جواب دیا ( عرفت ) میں نے جان لیا کیونکہ اس سے پہلے یہاں آچکے تھے اس لیے اس جگہ کا نام ہی عرفہ ہو گیا ۔ (عبدالرزاق:97/5) حضرت عطاء رحمہ اللہ ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ابومجلز رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن ابی حاتم:519/2) ” مشعر الحرام “ ” مشعر الاقصی “ اور ” الال “ بھی ہے ، اور اس پہاڑ کو بھی عرفات کہتے ہیں جس کے درمیان جبل الرحمۃ ہے ، ابوطالب کے ایک مشہور قصیدے میں بھی ایک شعر ان معنوں کا ہے ، اہل جاہلیت بھی عرفات میں ٹھہرتے تھے جب پہاڑ کی دھوپ چوٹیوں پر ایسی باقی رہ جاتی جیسے آدمی کے سر پر عمامہ ہوتا ہے تو وہ وہاں سے چل پڑتے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے اس وقت چلے جب سورج بالکل غروب ہو گیا ، پھر مزدلفہ میں پہنچ کر یہاں پڑاؤ کیا اور سویرے اندھیرے ہی اندھیرے بالکل اول وقت میں رات کے اندھیرے اور صبح کی روشنی کے ملے جلے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں نماز صبح ادا کی اور جب روشنی واضح ہو گئی تو صبح کی نماز کے آخری وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کیا سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عرفات میں خطبہ سنایا اور حسب عادت حمد و ثنا کے بعد امابعد کہہ کر فرمایا کہ حج اکبر آج ہی کا دن ہے دیکھو مشرک اور بت پرست تو یہاں سے جب دھوپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہوتی تھی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامہ ہوتا ہے تو سورج غروب ہونے سے پیشتر ہی لوٹ جاتے تھے لیکن ہم سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے واپس ہوں گے وہ مشعر الحرام سے سورج نکلنے کے بعد چلتے تھے جبکہ اتنی وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھوپ اس طرح نمایاں ہو جاتی جس طرح لوگوں کے سروں پر عمامے ہوتے ہیں لیکن ہم سورج نکلنے سے پہلے ہی چل دیں گے ہمارا طریقہ مشرکین کے طریقے کے خلاف ہے ۔ (طبرانی کبیر:28/20:صحیح) امام حاکم نے اسے شرط شیخین پر اور بالکل صحیح بتلایا ہے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ان لوگوں کا قول ٹھیک نہیں جو فرماتے ہیں کہ سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن آپ سے کچھ سنا نہیں ، معرور بن سوید رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عرفات سے لوٹتے ہوئے دیکھا گویا اب تک بھی وہ منظر میرے سامنے ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ تھے اپنے اونٹ پر تھے اور فرما رہے تھے ہم واضح روشنی میں لوٹے صحیح مسلم کی جابر والی ایک مطول حدیث جس میں حجۃ الوداع کا پورا بیان ہے اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورج کے غروب ہونے تک عرفات میں ٹھہرے جب سورج چھپ گیا اور قدرے زردی ظاہر ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اپنی سواری پر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا اور اونٹنی کی نکیل تان لی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے قریب پہنچ گیا اور دائیں ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگو آہستہ آہستہ چلو نرمی اطمینان و سکون اور دلجمعی کے ساتھ چلو جب کوئی پہاڑی آئی تو نکیل قدرے ڈھیلی کرتے تاکہ جانور بہ آسانی اوپر چڑھ جائے ، مزدلفہ میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی اذان ایک ہی کہلوائی اور دونوں نمازوں کی تکبیریں الگ الگ کہلوائیں مغرب کے فرضوں اور عشاء کے فرضوں کے درمیان سنت نوافل کچھ نہیں پڑھے پھر لیٹ گئے ، صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد نماز فجر ادا کی جس میں اذان و اقامت ہوئی پھر قصوی نامی اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر الحرام میں آئے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا میں مشغول ہو گئے اور اللہ اکبر اور لا الہٰ الا اللہ اور اللہ کی توحید بیان کرنے لگے یہاں تک کہ خوب سویرا ہو گیا ، سورج نکلنے سے پہلے ہی پہلے آپ یہاں سے روانہ ہو گئے ، (صحیح مسلم:1218) سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہاں سے چلے تو کیسی چال چلتے تھے فرمایا اور درمیانہ دھیمی چال سواری چلا رہے تھے ہاں جب راستہ میں کشادگی دیکھتے تو ذرا تیز کر لیتے ۔ (صحیح بخاری:1666) پھر فرمایا عرفات سے لوٹتے ہوئے مشعرالحرام میں اللہ کا ذکر کرو یعنی یہاں دونوں نمازیں جمع کر لیں ، عمرو بن میمون رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مشعرالحرام کے بارے میں دریافت فرماتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ خاموش رہتے ہیں جب قافلہ مزدلفہ میں جا کر اترتا ہے تو فرماتے ہیں سائل کہاں ہے یہ ہے مشعر الحرام ، آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ مزدلفہ تمام کا تمام مشعر الحرام ہے ، پہاڑ بھی اور اس کے آس پاس کی کل جگہ ، آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ قزح پر بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں تو فرمایا یہ لوگ کیوں بھیڑ بھاڑ کر رہے ہیں ؟ یہاں کی سب جگہ مشعر الحرام ہے ، اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی کل جگہ مشعر الحرام ہے ، (تفسیر ابن ابی حاتم:521/2) عطاء رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ مزدلفہ کہاں ہے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب عرفات سے چلے اور میدان عرفات کے دونوں کنارے چھوڑے پھر مزدلفہ شروع ہو گیا وادی محسر تک جہاں چاہو ٹھہرو لیکن میں تو قزح سے ادھر ہی ٹھہرنا پسند کرتا ہوں تاکہ راستے سے یکسوئی ہو جائے ، مشاعر کہتے ہیں ظاہری نشانوں کو مزدلفہ کو مشعر الحرام اس لیے کہتے ہیں کہ وہ حرم میں داخل ہے ، سلف صالحین کی ایک جماعت کا اور بعض اصحاب شافعی رحمہ اللہ کا مثلا قفال اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ علیہما کا خیال ہے کہ یہاں کا ٹھہرنا حج کا رکن ہے بغیر یہاں ٹھہرے حج صحیح نہیں ہوتا کیونکہ ایک حدیث سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے اس معنی کی مروی ہے ، بعض کہتے ہیں یہ ٹھہرنا واجب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے اگر کوئی یہاں نہ ٹھہرا تو قربانی دینی پڑے گی ، امام صاحب کا دوسرا قول یہ ہے کہ مستحب ہے اگر نہ بھی ٹھہرا تو کچھ حرج نہیں ، پس یہ تین قول ہوئے ہم یہاں اس بحث کو زیادہ طول دینا مناسب نہیں سمجھتے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ( قرآن کریم کے ظاہری الفاظ پہلے قول کی زیادہ تائید کرتے ہیں واللہ اعلم ۔ مترجم ) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ عرفات کا سارا میدان ٹھہرنے کی جگہ ہے ، عرفات سے بھی اٹھو اور مزدلفہ کی کل حد بھی ٹھہرنے کی جگہ ہے ہاں وادی محسر نہیں ، (مسند احمد:82/4:مرسل و ضعیف) مسند احمد کی اس حدیث میں اس کے بعد ہے کہ مکہ شریف کی تمام گلیاں قربانی کی جگہ ہیں اور ایام تشریق سب کے سب قربانی کے دن ہیں ، لیکن یہ حدیث بھی منقطع ہے اس لیے کہ سلیمان بن موسیٰ رشدق نے جبیر بن مطعم رحمہ اللہ کو نہیں پایا لیکن اس کی اور سندیں بھی ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ (مسند احمد:82/4:صحیح لغیرہ) پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے کہ احکام حج وضاحت کے ساتھ بیان فرما دئیے اور خلیل اللہ کی اس سنت کو واضح کر دیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے تم اس سے بے خبر تھے ، یعنی اس ہدایت سے پہلے ، اس قرآن سے پہلے ، اس رسول سے پہلے ، فی الواقع ان تینوں باتوں سے پہلے دنیا گمراہی میں تھی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔