وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
196-2 اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو، پھر اگر تم روک دیے جاؤ تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرو) اور اپنے سروں کو نہ مونڈو، یہاں تک کہ قربانی اپنے حلال ہونے کی جگہ پر پہنچ جائے، پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا اسے اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو روزے یا صدقے یا قربانی میں سے کوئی ایک فدیہ ہے۔ پھر جب تم امن میں ہوجاؤ تو تم میں سے جو عمرہ سے حج تک فائدہ اٹھائے تو قربانی میں سے جو میسر ہو (کرے) پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے حج کے دوران اور سات دن کے اس وقت رکھے جب تم واپس جاؤ، یہ پورے دس ہیں۔ یہ اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔
حج اور عمرہ کے مسائل اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو ، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہیئے ، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج و عمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کر دیا ہے «فللہ الحمد والمنۃ» سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو ۔ سیدنا سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا تمام کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو تمہارا سفر صرف حج و عمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کر دو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو ، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آ گیا کہ آؤ حج و عمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج و عمرہ ادا ہو جائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:437/1) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لیے کہ قرآن شریف میں ہے آیت «اَلْحَجٰ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ» ( 2 ۔ البقرہ : 197 ) حج کے مہینے مقرر ہیں ۔ (ایضاً) قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لیے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سن ٦ ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں ، دوسرا ذوالقعدہ سن ٧ ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سن ٨ ہجری میں عمرۃ الجعرانہ ، چوتھا ذوالقعدہ سن ١٠ہجری میں حج کے ساتھ ۔ (سنن ابوداود:1993 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا ، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ہانی رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔ (صحیح مسلم:1256) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے فرمایا تھا کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے جانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جا سکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لیے ہی مخصوص ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حج و عمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں ، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہو گیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے عبداللہ کی قرأت یہ ہے آیت «واتموا الحج والعمرۃ الی البیت» عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہو گیا ، سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سیدنا ابن عباس کی قرأت بھی یہی تھی ، علقمہ رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:7/4) ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے حدیث «واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت» ، شعبی رحمہ اللہ کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے ، بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ۔ (صحیح بخاری:1556) ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو گیا ۔ (مسند احمد:175/4) ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں موجود ہوں فرمایا اپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کر لو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر ۔ (التمھیدلابن البر:251/2) یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں ۔ (صحیح بخاری:1536) ایک روایت میں اس کا نام سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ آیا ہے دوسری روایت میں سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اگر تم گھیر لیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سن ٦ ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورۃ الفتح اتری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چنانچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سرمنڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجھکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے ، اور اپنا سر منڈوایا پھر بس لوگ آمادہ ہو گئے بعض نے سر منڈوا لیا ، بعض نے کچھ بال کتروا لیے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم بال کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سرمنڈوانے والوں کے لیے یہی دعا کی ، تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لیے بھی دعا کر دی ۔ (صحیح بخاری:1727) سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی ۔ (صحیح بخاری:1451) حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہو جائے تو اس کے لیے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لیے ہی بتاتے ہیں ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ، طاؤس ، زہری اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں ، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہو جائے یا لنگڑا لولا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا وہ اگلے سال حج کر لے راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سنن ابوداود:1862 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ سیدنا ابن مسعود ، ابن زبیر رضی اللہ عنہما ، علقمہ سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر ، مجاہد ، نخعی ، عطا اور مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہو جانا اور لنگڑا لولا ہو جانا بھی ایسا ہی عذر ہے ، سفیان ثوری رحمہ اللہ ہر مصیبت و ایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں ، (تفسیر ابن ابی حاتم:445/1) بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ضباعہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کر لو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہو گی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں ۔ (صحیح بخاری:5089) اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا ناجائز ہے ، امام شافعی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے ، امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح ہے ۔ پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے ۔ (موطا:385/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں ۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:450/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے ، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہو گا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں ، گائے اور اونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں ، بخاری و مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہو جائیں ، (صحیح مسلم:1318) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے ، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے ، جمہور کے اس قول کی کہ ” بکری کافی ہے “ کی یہ دلیل ہے کہ قرآن نے میسر آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہی ہیں جیسے حبر البحر ۔ ترجمان قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی ۔ (صحیح بخاری:1703) پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ ، اس کا عطف آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) پر ہے ، آیت «فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) پر نہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ سے یہاں سہو ہو گیا ہے وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کر دیں ، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج و عمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہو لے اگر وہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب نے تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو احرام میں ہی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہو جائے میں احرام نہیں اتار سکتا ۔ (صحیح بخاری:1566) پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دیدے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں کوفے کی مسجد میں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہو گی میں خیال بھی نہیں کر سکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو میں نے کہا یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم میں تو مفلس آدمی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اپنا سرمنڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع ( تقریباً سوا سیر سوا چھٹانک ) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے ۔ (صحیح بخاری:4517) ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا ، (صحیح بخاری:5665) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہو گئی تھیں ، (صحیح بخاری:4190) ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سرمنڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کر دی ، ایک اور حدیث میں ہے ( نسک ) یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق ( پیمانہ ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کر دینا ہے ، (الدر المنثور للسیوطی:515/1) سیدنا علی رضی اللہ عنہما ، محمد بن کعب ، علقمہ ، ابراہیم ، مجاہد ، عطا ، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے ، (سنن ابوداود:1861 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ ” او “ کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کر لے ۔ حضرت مجاہد ، عکرمہ ، عطاء ، طاؤس ، حسن ، حمید ، اعرج ، ابراہیم نخعی اور ضحاک رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کر لے روزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے ، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کر لے ، پروردگار رحمنٰ و رحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لیے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے ، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ افضیلت پر عمل کرانا تھا اس لیے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا ، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں ، «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کر دیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں ، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لیے کہ مرفوع حدیث میں آ چکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے ، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے ، طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے ۔ ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ حج کو نکلے آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا علی اور حسین رضی اللہ عنہما بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حسین رضی اللہ عنہ تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا حال ہے ؟ جناب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کر دیا ، تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لیے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لیے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمتع والا شخص بھی قربانی کرے ، خواہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو ، اصل تمتع یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تمتع ان دونوں قسموں میں شامل ہے ، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں بعض راوی تو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج تمتع کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تمتع کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنی درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کر سکتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تمتع والی تھیں ۔ (سنن ابوداود:1751 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس سے ثابت ہوا کہ تمتع بھی مشروع ہے ، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تمتع کی آیت بھی قرآن میں نازل ہو چکی ہے اور ہم نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج و عمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت «وَاَتِمٰوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ» ( 2 ۔ البقرہ : 196 ) لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج و عمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃ مروی ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کر سکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہو جائیں گے ، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں ، علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحجہ کے دنوں میں رکھ لے حضرت طاؤس مجاہد رحمہ اللہ علیہما وغیرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں ، شعبی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایک یوم الترویہ کا اور ایک عرفہ کا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی یہی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:94/4) اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقر و عید کے بعد کے تین دن آ جائیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے (صحیح بخاری:1997) امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی پہلا قول یہی ہے ، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے ، عکرمہ ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر رحمہ اللہ علیہم بھی یہی فرماتے ہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:98/4) حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں ، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔ (صحیح مسلم:1141) پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد رحمہ اللہ اور عطا رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں ، بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے لیے پھر حج کی تہلیل کی لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی ۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے (صحیح بخاری:1691) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں ۔ پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لیے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے آیت «وَمَا مِن دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَطِیرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِن شَیْءٍ ثُمَّ إِلَیٰ رَبِّہِمْ یُحْشَرُونَ» ( 6-الأنعام : 38 ) نہ کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہو اور جگہ ہے آیت «وَّلَا تَخُــطٰہٗ بِیَمِیْنِکَ» ( 39 ۔ العنکبوت : 48 ) تو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھنا نہیں ، اور جگہ ہے «وَوَاعَدْنَا مُوسَیٰ ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً» ( 7-الأعراف : 142 ) ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تیس راتوں کا وعدہ دیا اور دس اور اس کے ساتھ پورا کیا اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا ، پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لیے ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام و کمال کرنے کا حکم ہے اور کاملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد الحرام کے رہنے والے نہ ہوں ، اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کر سکتے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہی فرماتے ہیں ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے مکہ والو تم تمتع نہیں کر سکتے باہر والوں کے لیے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا ، طاؤس رحمہ اللہ کی تفسیر بھی یہی ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:111/4) لیکن عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں ان کے لیے بھی تمتع کرنا جائز نہیں ، مکحول رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے ۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اس کے قریب وہ تو تمتع کر سکتا ہے اور لوگ نہیں کر سکتے ، عطاء رحمہ اللہ دو دن بھی فرماتے ہیں ، امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لیے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لیے یہی حکم ہے اس لیے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر ، اور ان سب کے لیے حج میں تمتع کرنا جائز ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے ۔