سورة النحل - آیت 120

إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک ابراہیم ایک امت تھا، اللہ کا فرماں بردار، ایک اللہ کی طرف ہوجانے والا اور وہ مشرکوں سے نہ تھا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جد از انبیاء ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہدیات کے امام امام حنفا ، والد انبیاء ، خلیل الرحمان ، رسول جل وعلا ، ابراہیم علیہ الصلوۃ و التسلیم کی تعریف بیان ہو رہی ہے اور مشرکوں یہودیوں اور نصرانیوں سے انہیں علیحدہ کیا جا رہا ہے ۔ «أُمَّۃُ» کے معنی امام کے ہیں جن کی اقتداء کی جائے قانت کہتے ہیں اطاعت گزار فرماں بردار کو ، حنیف کے معنی ہیں شرک سے ہٹ کر توحید کی طرف آ جانے والا ۔ اسی لئیے فرمایا کہ ’ وہ مشرکوں سے بیزار تھا ‘ ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے جب «أُمَّۃً قَانِتًا» کے معنی دریافت کئے گئے تو فرمایا ” لوگوں کو بھلائی سکھانے والا اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی کرنے والا “ ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” امت کے معنی ہیں لوگوں کے دین کا معلم “ ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ” معاذ امت قانت اور حنیف تھے “ اس پر کسی نے اپنے دل میں سوچا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ غلطی کرگئے ایسے تو قرآن کے مطابق خلیل الرحمن علیہ السلام تھے ۔ پھر زبانی کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو امت فرمایا ہے ۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” جانتے بھی ہو امت کے کیا معنی ؟ اور قانت کے کیا معنی ؟ امت کہتے ہیں اسے جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور قانت کہتے ہیں اسے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگا رہے ۔ بیشک معاذ ایسے ہی تھے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:660/7:) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ تنہا امت تھے اور تابع فرمان تھے ۔ وہ اپنے زمانہ میں تنہا موحد ومومن تھے ۔ باقی تمام لوگ اس وقت کافر تھے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” وہ ہدایت کے امام تھے اور اللہ کے غلام تھے ۔ اللہ کی نعمتوں کے قدرداں اور شکر گزار تھے اور رب کے تمام احکام کے عامل تھے جیسے خود اللہ نے فرمایا «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:37) ’ وہ ابراہیم علیہ السلام جس نے پورا کیا ‘ یعنی اللہ کے تمام احکام کو تسلیم کیا ، اور ان پر علم بجا لایا ۔ اسے اللہ نے مختار اور مصطفی بنا لیا ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:51) الخ ، ’ ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم [ علیہ السلام ] کو رشد و ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اسے خوب جانتے تھے ‘ ۔ اسے ہم نے راہ مستقیم کی رہبری کی تھی صرف ایک اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» کی وہ عبادت واطاعت کرتے تھے اور اللہ کی پسندیدہ شریعت پر قائم تھے ۔ ہم نے انہیں دین دنیا کی خبر کا جامع بنایا تھا اپنی پاکیزہ زندگی کے تمام ضروری اوصاف حمیدہ ان میں تھے ۔ ساتھ ہی آخرت میں بھی نیکوں کے ساتھی اور صلاحیت والے تھے ۔ ان کا پاک ذکر دنیا میں بھی باقی رہا اور آخرت میں بڑے عظیم الشان درجے ملے ۔ ان کے کمال ، ان کی عظمت ، ان کی محبت ، توحید اور ان کے پاک طریق پر اس سے بھی روشنی پڑتی ہے کہ ’ اے خاتم رسل اے سیدالانبیاءت جھے بھی ہمارا حکم ہو رہا ہے کہ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کر جو مشرکوں سے بری الذمہ تھا ‘ ۔ سورۃ الانعام میں ارشاد ہے «قُلْ اِنَّنِیْ ہَدٰینِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مٰسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِــیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:161) الخ ، ’ کہہ دے کہ مجھے میرے رب نے صراط مستقیم کی رہبری کی ہے ۔ مضبوط اور قائم دین ابراہیم حنیف کی جو مشرکوں میں نہ تھا ‘ ۔