سورة النحل - آیت 112

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلاہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ کی عظیم نعمت بعثت نبوی ہے اس سے مراد اہل مکہ میں یہ امن و اطمینان میں تھے ۔ آس پاس لڑائیاں ہوتیں ، یہاں کوئی آنکھ بھر کر بھی نہ دیکھتا جو یہاں آ جاتا ، امن میں سمجھا جاتا ۔ جیسے قرآن نے فرمایا ہے کہ «وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْہُدَی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا آمِنًا یُجْبَی إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا» ۱؎ (28-القصص:57) ’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم ہدایت کی پیروی کریں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان کا حرم نہیں دے رکھا ؟ جہاں ہماری روزیاں قسم قسم کے پھولوں کی شکل میں ان کے پاس چاروں طرف سے کھینچی چلی آتی ہیں ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ عمدہ اور گزارے لائق روزی اس شہر کے لوگوں کے پاس ہر طرف سے آرہی تھی لیکن پھر بھی یہ اللہ کی نعمتوں کے منکر رہے جن میں سب سے اعلیٰ نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تھی ‘ ۔ جیسے ارشاد باری ہے آیت « أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَۃَ اللہِ کُفْرًا وَأَحَلٰوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ» ۔ (14-ابراھیم:28-29) ’ کیا تونے انہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف پہنچا دیا جو جہنم ہے جہاں یہ داخل ہوں گے اور جو بری قرار گاہ ہے ‘ ۔ ان کی اس سرکشی کی سزا میں دونوں نعمتیں دو زحمتوں سے بدل دی گئیں امن خوف سے، اطمینان بھوک اور گھبراہٹ سے ۔