وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اور جب ہم کوئی آیت کسی دوسری آیت کی جگہ بدل کر لاتے ہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، تو وہ کہتے ہیں تو تو گھڑ کر لانے والا ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔
ازلی بدنصیب لوگ مشرکوں کی عقلی ، بے ثباتی اور بے یقینی کا بیان ہو رہا ہے کہ ’ انہیں ایمان کیسے نصیب ہو ؟ ‘ یہ تو ازلی بد نصیب ہیں ، ناسخ منسوخ سے احکام کی تبدیلی دیکھ کر بکنے لگتے ہیں کہ لو صاحب ان کا بہتان کھل گیا ، اتنا نہیں جانتے کہ قادر مطلق اللہ جو چاہے کرے جو ارادہ کرے ، حکم دے ، ایک حکم کو اٹھا دے دوسرے کو اس کی جگہ رکھ دے ۔ جیسے آیت «مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:106) ، میں فرمایا ہے ۔ ’ پاک روح [ یعنی جبرائیل علیہ السلام ] اسے اللہ کی طرف سے حقانیت و صداقت کے عدل و انصاف کے ساتھ لے کر تیری جانب آتے ہیں تاکہ ایماندار ثابت قدم ہو جائیں ، اب اترا ، مانا ، پھر اترا ، پھر مانا ، ان کے دل رب کی طرف جھکتے رہیں ، تازہ تازہ کلام الٰہی سنتے رہیں ، مسلمانوں کے لیے ہدایت و بشارت ہو جائے ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے راہ یافتہ ہو کر خوش ہو جائیں ‘ ۔