وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اور جس دن ہم ہر امت میں ان پر انھی میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے اور فرماں برداروں کے لیے ہدایت اور رحمت اور خوش خبری ہے۔
کتاب مبین اللہ تعالیٰ اپنے محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرما رہے ہیں کہ ’ اس دن کو یاد کر اور اس دن جو تیری شرافت وکرامت ہونے والی ہے اس کا بھی ذکر کر ‘ ۔ یہ آیت بھی ویسی ہی ہے جیسی سورۃ نساء کے شروع کی «فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِن کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَیٰ ہٰؤُلَاءِ شَہِیدًا» ۱؎ (4-النساء:41) یعنی ’ کیونکر گزرے گی جب کہ ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سورۃ نساء پڑھوائی جب وہ اس آیت تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس کر کافی ہے } ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار تھیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5049) پھر فرماتا ہے ’ اپنی اس اتاری ہوئی کتاب میں تیرے سامنے سب کچھ بیان فرما دیا ہے ہر علم اور ہر شے اس قرآن میں ہے ۔ ہر حلال حرام ، ہر ایک نافع علم ، ہر بھلائی گزشتہ کی خبریں ، آ ئندہ کے واقعات ، دین دنیا ، معاش معاد ، سب کے ضروری احکام واحوال اس میں موجود ہیں ۔ یہ دلوں کی ہدایت ہے ، یہ رحمت ہے ، یہ بشارت ہے ‘ ۔ امام اوزاعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” یہ کتاب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا کر ہرچیز کا بیان ہے “ ۔ اس آیت کو اوپر والی آیت سے غالباً یہ تعلق ہے کہ ’ جس نے تجھ پر اس کتاب کی تبلیغ فرض کی ہے اور اسے نازل فرمایا ہے وہ قیامت کے دن تجھ سے اس کی بابت سوال کرنے والا ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے کہ «فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِینَ أُرْسِلَ إِلَیْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:6) ’ امتوں اور رسولوں سے سب سے سوال ہوگا ۔ واللہ ہم سب سے ان کے اعمال کی بازپرس کریں گے ‘ ۔ «یَوْمَ یَجْمَعُ اللہُ الرٰسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّکَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ» ۱؎ (5-المائدۃ:109) ’ رسولوں کو جمع کر کے ان سے سوال ہوگا کہ تمہیں کیا جواب ملا ؟ وہ کہیں گے ، ہمیں کوئی علم نہیں ، تو علام الغیوب ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «نَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَادٰکَ إِلَیٰ مَعَادٍ» ۱؎ (28-القصص:85) یعنی ’ جس نے تجھ پر تبلیغ قرآن فرض کی ہے ، وہ تجھے قیامت کے دن اپنے پاس لوٹا کر اپنے سونپے ہوئے فریضے کی بابت تجھ سے پر سش کرنے والا ہے ‘ ۔ یہ ایک قول بھی اس آیت کی تفسیر میں ہے اور ہے بھی معقول اور عمدہ ۔