وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
اور اللہ نے تمھارے لیے خود تمھی میں سے بیویاں بنائیں اور تمھارے لیے تمھاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیاتو کیا وہ باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کا وہ انکار کرتے ہیں۔
بندوں پر اللہ تعالٰی کا احسان اپنے بندوں پر اپنا ایک اور احسان جتاتا ہے کہ ’ انہی کی جنس سے انہی کی ہم شکل ، ہم وضع عورتیں ہم نے ان کے لیے پیدا کیں ‘ ۔ اگر جنس اور ہوتی تو دلی میل جول ، محبت و موعدت قائم نہ رہتی لیکن اپنی رحمت سے اس نے مرد عورت ہم جنس بنائے ۔ پھر اس جوڑے سے نسل بڑھائی ، اولاد پھیلائی ، لڑکے ہوئے ، لڑکوں کے لڑکے ہوئے ۔ «حَفَدَۃً» کے ایک معنی تو یہی پوتوں کے ہیں ، دوسرے معنی خادم اور مددگار کے ہیں پس لڑکے اور پوتے بھی ایک طرح خدمت گزار ہوتے ہیں اور عرب میں یہی دستور بھی تھا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ” انسان کی بیوی کی سابقہ گھر کی اولاد اس کی نہیں ہوتی “ ۔ «حَفَدَۃً» اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے سامنے اس کے لیے کام کاج کرے ۔ یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ اس سے مراد دامادی رشتہ ہے اس کے معنی کے تحت میں یہ سب داخل ہیں ۔ چنانچہ قنوت میں جملہ آتا ہے «وَإِلَیْک نَسْعَی وَنَحْفِدُ» ہماری سعی کوشش اور خدمت تیرے لیے ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اولاد سے ، غلام سے ، سسرال والوں سے ، خدمت حاصل ہوتی ہے ان سب کے پاس سے نعمت الٰہی ہمیں ملتی ہے ۔ ہاں جن کے نزدیک «حَفَدَۃً» کا تعلق «أَزْوَاجًا» سے ہے ان کے نزدیک تو مراد اولاد اور اولاد کی اولاد اور داماد اور بیوی کی اولاد ہیں ۔ پس یہ سب بسا اوقات اسی شخص کی حفاظت میں ، اس کی گود میں اور اس کی خدمت میں ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہی مطلب سامنے رکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ { اولاد تیری غلام ہے } ۔ جیسے کہ ابوداؤد میں ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2131 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور جنہوں نے «حَفَدَۃً» سے مراد خادم لیا ہے ، ان کے نزدیک یہ معطوف ہے اللہ کے فرمان آیت «وَ اللہُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا» ۱؎ (16-النحل:72) پر یعنی ’ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بیویوں اور اولاد کو خادم بنا دیا ہے اور تمہیں کھانے پینے کی بہترین ذائقے دار چیزیں عنایت فرمائی ہیں ‘ ۔ پس باطل پر یقین رکھ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرنی چاہیئے ۔ رب کی نعمتوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کی دوسروں کی طرف نسبت کر دی ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے احسان جتاتے ہوئے فرمائے گا ’ کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ میں نے تجھے ذی عزت نہیں بنایا تھا ؟ میں نے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرے تابع نہیں کیا تھا اور میں نے تجھے سرداری میں اور آرام میں نہیں چھوڑا تھا ؟ ‘ } ۱؎ (صحیح مسلم:2968)