أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
تمھارے لیے روزے کی رات اپنی عورتوں سے صحبت کرنا حلال کردیا گیا ہے، وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بے شک تم اپنی جانوں کی خیانت کرتے تھے تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی اور تمھیں معاف کردیا، تو اب ان سے مباشرت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہوجائے، پھر روزے کو رات تک پورا کرو اور ان سے مباشرت مت کرو جب کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، سو ان کے قریب نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ بچ جائیں۔
رمضان میں مراعات اور کچھ پابندیاں ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا پینا ، جماع کرنا عشاء کی نماز تک جائز تھا اور اگر کوئی اس سے بھی پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہو گیا ، اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو قدرے مشقت ہوئی جس پر یہ رخصت کی آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے رفث سے مراد یہاں جماع ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما عطا مجاہد سعید بن جبیر طاؤس سالم بن عبداللہ بن عمرو بن دینا حسن قتادہ زہری ضحاک ، ابراہیم نخعی ، سدی ، عطا خراسانی ، مقاتل بن حبان رحمہم اللہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:367/1) لباس سے مراد سکون ہے ، ربیع بن انس رحمہ اللہ لحاف کے معنی بیان کرتے ہیں ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:381/1) مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ انہیں ان راتوں میں بھی اجازت دی جاتی ہے پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جس میں بیان ہو چکا ہے کہ جب یہ حکم تھا کہ افطار سے پہلے اگر کوئی سوجائے تو اب رات کو جاگ کر کھا پی نہیں سکتا اب اسے یہ رات اور دوسرا دن گزار کر مغرب سے پہلے کھانا پینا حلال ہو گا ۔ سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھیتی باڑی کا کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں وہ تو گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی جب آ کر دیکھا تو بڑا افسوس ہوا کہ اب یہ رات اور دوسرا دن بھوکے پیٹوں کیسے گزرے گا ؟ چنانچہ جب آدھا دن ہوا تو سیدنا قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا اس پر یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ (صحیح بخاری:1915) روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔ (صحیح بخاری:4508 ) ایک اور روایت میں ہے کہ یہ قصور کئی ایک حضرات سے ہو گیا تھا جن میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہوں نے عشاء کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کی تھی پھر دربار نبوت میں شکایتیں ہوئی اور یہ رحمت کی آیتیں اتریں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2948) ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر یہ واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت یہ آیت اتری ایک روایت میں ہے کہ سیدنا قیس رضی اللہ عنہ نے عشاء کی نماز کے بعد نیند سے ہوشیار ہو کر کھا پی لیا تھا اور صبح حاضر ہو کر سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا قصور بیان کیا تھا ایک اور روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب مباشرت کا ارادہ کیا تو بیوی صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے نیند آ گئی تھی لیکن انہوں نے اسے بہانہ سمجھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:2943) اس رات آپ دیر تک مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھے رہے تھے اور بہت رات گئے گھر پہنچے تھے ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہی قصور ہو گیا تھا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:2949:حسن) «مَا کَتَبَ اللّٰہُ» سے مراد اولاد ہے ، بعض نے کہا جماع مراد ہے بعض کہتے ہیں لیلۃ القدر مراد ہے قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ رخصت ہے تطبیق ان سب اقوال میں اس طرح ہو سکتی ہے کہ عموم کے طور پر سبھی مراد ہیں ۔ جماع کی رخصت کے بعد کھانے پینے کی اجازت مل رہی ہے کہ صبح صادق تک اس کی بھی اجازت ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (ِمنَ الفجر) کا لفظ نہیں اترا تھا تو چند لوگوں نے اپنے پاؤں میں سفید اور سیاہ دھاگے باندھ لیے اور جب تک ان کی سفیدی اور سیاہی میں تمیز نہ ہوئی کھاتے پیتے رہے اس کے بعد یہ لفظ اترا اور معلوم ہو گیا کہ اس سے مراد رات سے دن ہے ۔ (صحیح بخاری:1917) مسند احمد میں ہے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو دھاگے ( سیاہ اور سفید ) اپنے تکیے تلے رکھ لیے اور جب تک ان کے رنگ میں تمیز نہ ہوئی تب تک کھاتا پیتا رہا صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا نکل اس سے مراد تو صبح کی سفیدی کا رات کی سیاہی سے ظاہر ہونا ہے ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ (صحیح بخاری:1916) مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر قول کا یہ ہے کہ آیت میں تو دھاگوں سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی تاریکی ہے اگر تیرے تکیہ تلے یہ دونوں آ جاتی ہوں تو گویا اس کی لمبائی مشرق و مغرب تک کی ہے ، صحیح بخاری میں یہ تفسیر بھی روایتا موجود ہے ۔ (صحیح بخاری:4509) بعض روایتوں میں یہ لفظ بھی ہے کہ پھر تو تو بڑی لمبی چوڑی گردن والا ہے ، بعض لوگوں نے اس کے معنی بیان کئے ہیں کہ کند ذہن ہے لیکن یہ معنی غلط ہیں ، بلکہ مطلب دونوں جملوں کا ایک ہی ہے کیونکہ جب تکیہ اتنا بڑا ہے تو گردن بھی اتنی بڑی ہی ہو گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری شریف میں سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کا اسی طرح کا سوال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح کا جواب تفصیل وار یہی ہے ، آیت کے ان الفاظ سے سحری کھانے کا مستحب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے اس لیے کہ اللہ کی رخصتوں پر عمل کرنا اسے پسند ہے ، حضور علیہ السلام کا فرمان ہے کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہے (صحیح بخاری:1923) ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے ہی کا فرق ہے ۔ (صحیح مسلم:1096) سحری کا کھانا برکت ہے اسے نہ چھوڑو اگر کچھ نہ ملے تو پانی کا گھونٹ ہی سہی اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ (مسند احمد:44/3:صحیح بالشواھد) اسی طرح کی اور بھی بہت سے حدیثیں ہیں سحری کو دیر کر کے کھانا چاہیئے ایسے وقت کہ فراغت کے کچھ ہی دیر بعد صبح صادق ہو جائے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سحری کھاتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اذان اور سحری کے درمیان اتنا ہی فرق ہوتا تھا کہ پچاس آیتیں پڑھ لی جائیں ۔ (صحیح بخاری:1921) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تک میری امت افطار میں جلدی کرے اور سحری میں تاخیر کرے تب تک بھلائی میں رہے گی ۔ (مسند احمد:147/5:صحیح بالشواھد) یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام غذائے مبارک رکھا ہے ۔ (سنن ابوداود:2344 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح بالشواھد) مسند احمد وغیرہ کی حدیچ میں ہے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی ایسے وقت کہ گویا سورج طلوع ہونے والا ہی تھا لیکن اس میں ایک راوی عاصم بن ابو نجود منفرد ہیں اور مراد اس سے دن کی نزدیکی ہے جیسے فرمان باری تعالیٰ فاذا بلغن اجلہن الخ یعنی جب وہ عورتیں اپنے وقتوں کو پہنچ جائیں مراد یہ ہے کہ جب عدت کا زمانہ ختم ہو جانے کے قریب ہو یہی مراد یہاں اس حدیث سے بھی ہے کہ انہوں نے سحری کھائی اور صبح صادق ہو جانے کا یقین نہ تھا بلکہ ایسا وقت تھا کہ کوئی کہتا تھا ہو گئی کوئی کہتا تھا نہیں ہوئی کہ اکثر اصحاب رسول اللہ رضی اللہ عنہم کا دیر سے سحری کھانا اور آخری وقت تک کھاتے رہنا ثابت ہے ۔ جیسے ابوبکر ، عمر ، علی ، ابن مسعود ، حذیفہ ، ابوہریرہ ابن عمر ، ابن عباس ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین کی بھی ایک بہت بڑی جماعت سے صبح صادق طلوع ہونے کے بالکل قریب تک ہی سحری کھانا مروی ہے ، جیسے محمد بن علی بن حسین ، ابومجلز ، ابراہیم نخعی ، ابوالضحی ، ابووائل رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ، شاگردان ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، عطا ، حسن ، حاکم بن عیینہ ، مجاہد ، عروہ بن زبیر ، ابو الشعشاء ، جابر بن زیاد ، اعمش اور جابر بن رشد رحمہ اللہ علیہم اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ہم نے ان سب کی اسناد اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام میں بیان کر دی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن جریری نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے تک کھانا پینا جائز ہے جیسے غروب ہوتے ہی افطار کرنا ، لیکن یہ قول کوئی اہل علم قبول نہیں کر سکتا کیونکہ نص قرآن کے خلاف ہے قرآن میں حیط کا لفظ موجود ہے ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سن کر تم سحری سے نہ رک جایا کرو وہ رات باقی ہوتی ہے اذان دے دیا کرتے ہیں تم کھاتے پیتے رہو جب تک عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان نہ سن لو وہ اذان نہیں کہتے جب تک فجرطلوع نہ ہو جائے ۔ (صحیح بخاری:623) مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ فجر نہیں جو آسمان کے کناروں میں لمبی پھیلتی ہے بلکہ وہ جو سرخی والی اور کنارے کنارے ظاہر ہونے والی ہوتی ہے ۔ (مسند احمد:23/4:حسن) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اس میں ہے کہ اس پہلی فجر کو جو طلوع ہو کر اوپر کو چڑھتی ہے دیکھ کر کھانے پینے سے نہ رکو بلکہ کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سرخ دھاری پیش ہو جائے ۔ (سنن ابوداود:2348 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) ایک اور حدیث میں صبح کاذب اور اذان بلال کو ایک ساتھ بھی بیان فرمایا ہے ۔ (صحیح مسلم:1094) ایک اور روایت میں صبح کاذب کو صبح کی سفیدی کے ستون کی مانند بتایا ہے ، دوسری روایت میں اس پہلی اذان کو جس کے مؤذن بلال رضی اللہ عنہ تھے یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ سوتوں کو جگانے اور نماز تہجد پڑھنے والوں اور قضاء لوٹانے کے لیے ہوتی (سنن ابوداود:2346 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) فجر اس طرح نہیں ہے جب تک اس طرح نہ ہو ( یعنی آسمان میں اونچی چڑھنے والی نہیں )(صحیح بخاری:621) بلکہ کناروں میں دھاری کی طرح ظاہر ہونے والی ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ فجر دوہیں ایک تو بھیڑیئے کی دم کی طرح ہے اس سے روزے دار پر کوئی چیز حرام نہیں ہوتی ہاں وہ فجر جو کناروں میں ظاہر ہو وہ صبح کی نماز اور روزے دار کا کھانا موقوف کرنے کا وقت ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:3003:جید) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو سفیدی آسمان کے نیچے سے اوپر کو چڑھتی ہے اسے نماز کی حلت اور روزے کی حرمت سے کوئی سروکار نہیں لیکن فجر جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چمکنے لگتی ہے وہ کھانا پینا حرام کرتی ہے ۔ حضرت عطا رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ آسمان میں لمبی لمبی چڑھنے والی روشنی نہ تو روزہ رکھنے والے پر کھانا پیناحرام کرتی ہے نہ اس سے نماز کا وقت آیا ہوا معلوم ہوسکتا ہے نہ حج فوت ہوتا ہے لیکن جو صبح پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھیل جاتی ہے یہ وہ صبح ہے کہ روزہ دار کے لیے سب چیزیں حرام کر دیتی ہے اور نمازی کو نماز حلال کر دیتی ہے اور حج فوت ہو جاتا ہے ان دونوں روایتوں کی سند صحیح ہے اور بہت سے سلف سے منقول ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔ مسئلہ مسئلہ : چونکہ جماع کا اور کھانے پینے کا آخری وقت اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والے کے لیے صبح صادق کا مقرر کیا ہے اس سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ صبح کے وقت جو شخص جنبی اٹھا وہ غسل کر لے اور اپنا روزہ پورا کر لے اس پر کوئی حرج نہیں ، چاروں اماموں اور سلف و خلف کے جمہور علماء کرام کا یہی مذہب ہے ، بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جماع کرتے صبح کے وقت جنبی اٹھتے پھر غسل کر کے روزہ رکھتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جنبہ ہونا احتلام کے سبب نہ ہوتا تھا ، سیدہ ام سلمہ والی روایت میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ افطار کرتے تھے نہ قضاء کرتے تھے ، (صحیح بخاری:1925) صحیح مسلم شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں صبح نماز کا وقت آجانے تک جنبی ہوتا ہوں تو پھر کیا میں روزہ رکھ لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی بات میرے ساتھ بھی ہوتی ہے اور میں روزہ رکھتا ہوں اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئیے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واللہ ! مجھے تو امید ہے کہ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کی باتوں کو جاننے والا میں ہوں ۔ (صحیح مسلم:1110) مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ جب صبح کی اذان ہو جائے اور تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ اس دن روزہ نہ رکھے ، اس کی اسناد بہت عمدہ ہے اور یہ حدیث شرط شیخین پر ہے ۔ جیسے کہ ظاہر ہے یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ، (صحیح بخاری:1925) سنن نسائی میں یہ حدیث بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ہے ، وہ اسامہ بن زید سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں اور مرفوع نہیں اور بعض دیگر علماء کا یہی مذہب ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، عطا ، ہشام بن عروہ اور حسن بصری رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنبی ہو کر سوگیا ہو اور آنکھ کھلے تو صبح صادق ہو گئی ہو تو اس کے روزے میں کوئی نقصان نہیں سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما والی حدیث کا یہی مطلب ہے اور اگر اس نے عمدا غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں صبح صادق ہو گئی تو اس کا روزہ نہیں ہو گا عروہ ، طاؤس اور حسن رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر فرضی روزہ ہو تو پورا تو کر لے لیکن قضاء لازم ہے اور نفلی روزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ یہی کہتے ہیں ، خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت ہے بعض کہتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے منسوخ ہے لیکن حقیقت میں تاریخ کا پتہ نہیں جس سے نسخ ثابت ہو سکے ۔ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کی ناسخ یہ آیت قرآنی ہے لیکن یہ بھی دور کی بات ہے اس لیے کہ اس آیت کا بعد میں ہونا تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ اس حیثیت سے تو بظاہر یہ حدیث اس آیت کے بعد کی ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ’ لا‘ کمال نفی کا ہے یعنی اس شخص کا روزہ کامل نہیں کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث سے جواز صاف طور سے ثابت ہو رہا ہے یہی مسلک ٹھیک بھی ہے ۔ اور دوسرے تمام اقوال سے یہ قول عمدہ ہے اور یوں کہنے سے دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت بھی نکل آتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے کہ روزے کو رات تک پورا کرو اس سے ثابت ہوا کہ سورج کے ڈوبتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ، بخاری مسلم میں امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ادھر سے رات آ جائے اور ادھر سے دن چلا جائے توروزے دار افطار کر لے ۔ (صحیح بخاری:1954) بخاری مسلم میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے خیر سے رہیں گے ۔ (صحیح بخاری:1957) مسند احمد میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے زیادہ پیارے وہ بندے ہیں جو روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنے والے ہیں ۔ (مسند احمد:329/2:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ بشری بن خصاصیہ کی بیوی صاحبہ لیلیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے دو روزوں کو بغیر افطار کئے ملانا چاہا تو میرے خاوند نے مجھے منع کیا اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ کام نصرانیوں کا ہے تم تو روزے اس طرح رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رات کو روزہ افطار کر لیا کرو ۔ (مسند احمد:225/5:صحیح) اور بھی بہت سی احادیث روزے سے روزے کو ملانے کی ممانعت آئی ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے سے روزہ نہ ملاؤ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپصلی اللہ علیہ وسلم خود تو ملاتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں ہوں میں رات گزارتا ہوں میرا رب مجھے کھلا پلا دیتا ہے لیکن لوگ پھر بھی اس سے باز نہ رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن دو راتوں کا برابر روزہ رکھا پھر چاند دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاند نہ چڑھتا تو میں یونہی روزوں کو ملائے جاتا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عاجزی ظاہر کرنا چاہتے تھے ۔ (صحیح بخاری:1965) بخاری و مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اور اسی طرح روزے کے بے افطار کئے اور رات کو کچھ کھائے بغیر دوسرے روزے سے ملا لینے کی ممانعت میں بخاری و مسلم میں سیدنا انس سیدنا ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی مرفوع حدیثیں مروی ہیں ۔ (صحیح بخاری:1964) پس ثابت ہوا کہ امت کو تو منع کیا گیا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی جاتی تھی ، یہ بھی خیال رہے کہ مجھے میرا رب کھلا پلا دیتا ہے اس سے مراد حقیقتاً کھانا پینا نہیں کیونکہ پھر تو روزے سے روزے کا وصال نہ ہوا بلکہ یہ صرف روحانی طور پر مدد ہے جیسے کہ ایک عربی شاعر کا شعر ہے ؎ : «لہا احادیث من ذکراک تشغلہا» «عن الشراب وتلہیہا عن الزاد» یعنی اسے تیرے ذکر اور تیری باتوں میں وہ دلچسپی ہے کہ کھانے پینے یک قلم بےپرواہ ہو جاتی ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص دوسری سحری تک رک رہنا چاہے تو یہ جائز ہے ۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے کو روزے سے مت ملاؤ جو ملانا ہی چاہے تو سحری تک ملا لے لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ملا دیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم جیسا نہیں مجھے تو رات ہی کو کھلانے والا کھلادیتا ہے اور پلانے والا پلا دیتا ہے ۔ (صحیح بخاری:1967) ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی آپ سحری کھا رہے تھے فرمایا آؤ تم بھی کھا لو اس نے کہا میں تو روزے سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روزہ کس طرح رکھتی ہو اس نے بیان کیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سحری کے وقت سے دوسری سحری کے وقت تک کا ملا ہوا روزہ کیوں نہیں رکھتیں ؟ (تفسیر ابن جریر الطبری:3042:ضعیف) مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سحری سے دوسری سحری تک کا روزہ رکھتے تھے ، (عبدالرزاق:7752:ضعیف) ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ سلف صالحین سے مروی ہے کہ وہ کئی کئی دن تک پے در پے بغیر کچھ کھائے روزہ رکھتے تھے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عبادت کے طور پر نہ تھا کہ بلکہ نفس کو مارنے کے لیے ریاضت کے طور پر تھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے سمجھا ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے روکنا صرف شفقت اور مہربانی کے طور پر تھا نا کہ ناجائز بتانے کے طور پر جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رحم کھا کر اس سے منع فرمایا تھا ، پس سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے عامر رحمہ اللہ اور ان کی راہ چلنے والے اپنے نفس میں قوت پاتے تھے اور روزے پر روزہ رکھے جاتے تھے ، یہ بھی مروی کہ جب وہ افطار کرتے تو پہلے گھی اور کڑوا گوند کھاتے تاکہ پہلے غذا پہنچنے سے آنتیں جل نہ جائیں ، مروی ہے کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سات سات دن تک برابر روزے سے رہتے اس اثناء میں دن کو یا رات کو کچھ نہ کھاتے اور پھر ساتویں دن خوب تندرست چست وچالاک اور سب سے زیادہ قوی پائے جاتے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دن کا روزہ فرض کر دیا رہی رات تو جو چاہے کھا لے جو نہ چاہے نہ کھائے پھر فرمان ہوتا ہے کہ اعتکاف کی حالت میں عورتوں سے مباشرت نہ کرو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جو شخص مسجد میں اعتکاف میں بیٹھا ہو خواہ رمضان میں خواہ اور مہینوں میں اس پر دن کے وقت یا رات کے وقت اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے جب تک اعتکاف پورا نہ ہو جائے ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں پہلے لوگ اعتکاف کی حالت میں بھی جماع کر لیا کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری اور مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے پر جماع حرام کیا گیا ۔ مجاہدرحمہ اللہ اور قتادہ رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:541/3:) پس علمائے کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ اعتکاف والا اگر کسی ضروری حاجت کے لیے گھر میں جائے مثلاً پیشاب پاخانہ کے لیے یا کھانا کھانے کے لیے تو اس کام سے فارغ ہوتے ہی مسجد میں چلا آئے وہاں ٹھہرنا جائز نہیں نہ اپنی بیوی سے بوس وکنار وغیرہ جائز ہے نہ کسی اور کام میں سوائے اعتکاف کے مشغول ہونا اس کے لیے جائز ہے بلکہ بیمار کی بیمار پرسی کے لیے بھی جانا جائز نہیں ہاں یہ اور بات ہے کہ چلتے چلتے پوچھ لے اعتکاف کے اور بھی بہت سے احکام ہیں بعض میں اختلاف بھی ہے جن سب کو ہم نے اپنی مستقل کتاب کتاب الصیام کے آخر میں بیان کیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ ۔ چونکہ قرآن پاک میں روزے کے بیان کے بعد اعتکاف کا ذکر ہے اس لیے اکثر مصنفین نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں روزے کے بعد ہی اعتکاف کے احکام بیان کئے ہیں اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اعتکاف روزے کی حالت میں کرنا چاہیئے یا رمضان کے آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی رمضان شریف کے آخری دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ (صحیح بخاری:2026) بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعتکاف کی حالت میں حاضر ہوتی تھیں اور کوئی ضروری بات پوچھنے کی ہوتی تو وہ دریافت کر کے چلی جاتی ایک مرتبہ رات کو جب جانے لگیں تو چونکہ مکان مسجد نبوی سے فاصلہ پر تھا اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ہو لیے کہ پہنچا آئیں راستہ میں دو انصاری صحابی مل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کو دیکھ کر شرم کے مارے جلدی جلدی قدم بڑھا کر جانے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ سنو یہ میری بیوی صفیہ ہیں وہ کہنے لگے سبحان اللہ ! ( کیا ہمیں کوئی اور خیال بھی ہو سکتا ہے ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح پھرتا رہتا ہے مجھے خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں کوئی بدگمانی نہ پیدا کر دے ۔ (صحیح بخاری:2035) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس واقعہ سے اپنی امت کو گویا سبق سکھا رہے ہیں کہ وہ تہمت کی جگہوں سے بچتے رہیں ورنہ ناممکن ہے کہ وہ پاکباز صحابہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی برا خیال بھی دل میں لائیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نسبت یہ خیال فرمائیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں مراد مباشرت سے جماع اور اس کے اسباب ہیں جیسے بوس و کنار وغیرہ ورنہ کسی چیز کا لینا دینا وغیرہ یہ سب باتیں جائز ہیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں میری طرف جھکا دیا کرتے تھے میں آپ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کے دنوں میں ضروری حاجت کے رفع کے سوا اور وقت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں اعتکاف کی حالت میں تو چلتے چلتے ہی گھر کے بیمار کی بیمار پرسی کر لیا کرتی ہوں ۔ (صحیح بخاری:2029) پھر فرماتا ہے کہ یہ ہماری بیان کردہ باتیں اور فرض کئے ہوئے احکام اور مقرر کی ہوئی حدیں ہیں روزے اور روزوں کے احکام اور اس کے مسائل اور اس میں جو کام جائز ہیں یا جو ناجائز ہیں غرض وہ سب ہماری حدبندیاں ہیں خبردار ان کے قریب بھی نہ آنا نہ ان سے تجاوز کرنا نہ ان کے آگے بڑھنا ۔ بعض کہتے ہیں یہ حد اعتکاف کی حالت میں مباشرت سے الگ رہنا ہے بعض کہتے ہیں ان آیتوں کے چاروں حکم مراد ہے پھر فرمایا جس طرح روزے اور اس کے احکام اور اس کے مسائل اور اس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی اسی طرح اور احکام بھی ہم اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سب کے سب تمام جہان کے لیے بیان کیا کرتے ہیں تاکہ وہ یہ معلوم کر سکیں کہ ہدایت کیا ہے اور اطاعت کسے کہتے ہیں ؟ اور اس بنا پر وہ متقی بن جائیں جیسے اور جگہ ہے آیت «ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظٰلُمٰتِ اِلَی النٰوْرِ وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ» ( 57 ۔ الحدید : 9 ) وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے اللہ تعالیٰ تم پر رافت و رحمت کرنے والا ہے ۔