شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان کا مہینا وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں، تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
نزول قرآن اور ماہ رمضان ماہ رمضان شریف کی فضیلت و بزرگی کا بیان ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن کریم اترا مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ابراہیمی صحیفہ رمضان کی پہلی رات اترا اور توراۃ چھٹی تاریخ اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل تیرھویں تاریخ اور قرآن چوبیسویں تاریخ نازل ہوا ۔ (مسند احمد:107/4:ضعیف) ایک اور روایت میں ہے کہ زبور بارھویں کو اور انجیل اٹھارہویں کو ، اگلے تمام صحیفے اور توراۃ و انجیل و زبور جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم بیت العزت سے آسمانی دنیا تک تو ایک ہی مرتبہ نازل ہوا اور پھر وقتًا فوقتًا حسب ضرورت زمین پر نازل ہوتا رہا یہی مطلب آیت «اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ» ( 97 ۔ القدر : 1 ) اور آیت «اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مٰبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ» ( 44 ۔ الدخان : 3 ) اور آیت «اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ» ( 2 ۔ البقرہ : 185 ) مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلہ مبارکہ بھی کہا ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے یہی مروی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ سے جب یہ سوال ہوا کہ قران کریم تو مختلف مہینوں میں برسوں میں اترتا رہا پھر رمضان میں اور وہ بھی لیلتہ القدر میں اترنے کے کیا معنی ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی مطلب بیان کیا ( ابن مردویہ وغیرہ ) آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ آدھی رمضان میں قرآن کریم دنیا کے آسمان کی طرف اترا بیت العزۃ میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات اور سوالات پر تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور بیس سال میں کامل ہوا اس میں بہت سی آیتیں کفار کے جواب میں بھی اتریں کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ قرآن کریم ایک ساتھ سارا کیوں نہیں اترا ؟ جس کے جواب میں فرمایا گیا آیت «لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا» ( 25 ۔ الفرقان : 32 ) یہ اس لیے کہ تیرے دل کو برقرار اور مضبوط رکھیں ۔ پھر قرآن کریم کی تعریف میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کی ہدایت ہے اور اس میں واضح اور روشن دلیلیں ہیں تدبر اور غور و فکر کرنے والا اس سے صحیح راہ پر پہنچ سکتا ہے یہ حق و باطل حرام و حلال میں فرق ظاہر کرنے والا ہے ہدایت و گمراہی اور رشد و برائی میں علیحدگی کرنے والا ہے ، بعض سلف سے منقول ہے کہ صرف رمضان کہنا مکروہ ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہنا چاہے ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رمضان نہ کہو یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے شہر رمضان یعنی رمضان کا مہینہ کہا کرو ، (ابن عدی:53/7:موضوع) مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور محمد بن کعب رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ، سیدنا ابن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کا مذہب اس کے خلاف ہے ، رمضان نہ کہنے کے بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے لیکن سنداً وہ کمزور ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس کے رد میں باب باندھ کر بہت سی حدیثیں بیان فرمائی ہیں ایک میں ہے جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور نیک نیتی کے ساتھ رکھے اس کے سبب اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں وغیرہ ۔ (صحیح بخاری:38) غرض اس آیت سے ثابت ہوا کہ جب رمضان کا چاند چڑھے کوئی شخص اپنے گھر ہو ، سفر میں نہ ہو اور تندرست بھی ہو اسے روزے رکھنے لازمی اور ضروری ہیں ، پہلے اس قسم کے لوگوں کو بھی جو رخصت تھی وہ اٹھ گئی اس کا بیان فرما کر پھر بیمار اور مسافر کے لیے رخصت کا بیان فرمایا کہ یہ لوگ روزہ ان دنوں میں نہ رکھیں اور پھر قضاء کر لیں یعنی جس کے بدن میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ سے روزے میں مشقت پڑے یا تکلیف بڑھ جائے یا سفر میں ہو تو افطار کر لے اور جتنے روزے جائیں اتنے دن پھر قضاء کر لے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان حالتوں میں رخصت عطا فرما کر تمہیں مشقت سے بچا لینا یہ سراسر ہماری رحمت کا ظہور ہے اور احکام اسلام میں آسانی ہے ۔ اب یہاں چند مسائل بھی سنئے ( ١ ) سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جو شخص اپنے گھر میں مقیم ہو اور چاند چڑھ جائے رمضان شریف کا مہینہ آ جائے پھر درمیان میں اسے سفر درپیش ہو تو اسے روزہ ترک کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسے لوگوں کو روزہ رکھنے کا صاف حکم قرآن پاک میں موجود ہے ، ہاں ان لوگوں کو بحالت سفر روزہ چھوڑنا جائز ہے جو سفر میں ہوں اور رمضان کا مہینہ آ جائے ، لیکن یہ قول غریب ہے ، ابومحمد بن حزم نے اپنی کتاب “ محلی “ میں صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے لیکن اس میں کلام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں فتح مکہ کے غزوہ کے لیے نکلے روزے سے تھے ” کدید “ میں پہنچ کر روزہ افطار کیا اور لوگوں کو بھی حکم دیا کہ روزہ توڑ دیں ۔ (صحیح بخاری:1948) ( ٢ ) صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم کی ایک اور جماعت نے کہا کہ سفر میں روزہ توڑ دینا واجب ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت «فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ» ( 2 ۔ البقرہ : 185 ) لیکن صحیح قول جو جمہور کا مذہب ہے یہ ہے کہ آدمی کو اختیار ہے خواہ رکھے خواہ نہ رکھے اس لیے کہ ماہ رمضان میں لوگ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے تھے بعض روزے سے ہوتے تھے بعض روزے سے نہیں ہوتے تھے پس روزے دار بے روزہ پر اور بے روزہ دار روزہ دار پر کوئی عیب نہیں پکڑاتا تھا ۔ (صحیح مسلم:1116) اگر افطار واجب ہوتا تو روزہ رکھنے والوں پر انکار کیا جاتا ، بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، بخاری و مسلم میں ہے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رمضان المبارک میں سخت گرمی کے موسم میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے گرمی کی شدت کی وجہ سے سر پر ہاتھ رکھے رکھے پھر رہے تھے ہم میں سے کوئی بھی روزے سے نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کے ۔ (صحیح بخاری:1945) ( ٣ ) تیسرا مسئلہ ۔ ایک جماعت علماء کا خیال ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ بھی ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا نہ رکھنے سے افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بحالت سفر روزہ رکھنا ثابت ہے ، ایک دوسری جماعت کا خیال ہے کہ روزہ نہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں رخصت پر عمل ہے ، اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو روزہ توڑ دے اس نے اچھا کیا اور جو نہ توڑے اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ (صحیح مسلم:1121) ایک اور حدیث شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی رخصتوں کو جو اس نے تمہیں دی ہیں تم لے لو ۔ (سنن نسائی:2258 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) تیسری جماعت کا قول ہے کہ رکھنا نہ رکھنا دونوں برابر ہے ۔ ان کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے کہ سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں روزے اکثر رکھا کرتا ہوں تو کیا اجازت ہے کہ سفر میں بھی روزے رکھ لیا کروں فرمایا اگر چاہو تو رکھو (صحیح بخاری:1942) بعض لوگوں کا قول ہے کہ اگر روزہ بھاری پڑتا ہو تو افطار کرنا افضل ہے ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا اس پر سایہ کیا گیا ہے پوچھا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ روزے سے ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں (صحیح بخاری:1946) یہ خیال رہے کہ جو شخص سنت سے منہ پھیرے اور روزہ چھوڑنا سفر کی حالت میں بھی مکروہ جانے تو اس پر افطار ضروری ہے اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔ مسند احمد وغیرہ میں سیدنا ابن عمر جابر رضی اللہ عنہما وغیرہ سے مروی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رخصت کو قبول نہ کرے اس پر عرفات کے پہاڑوں برابر گناہ ہو گا ۔ (مسند احمد:71/2:ضعیف) ( ۴ ) چوتھا مسئلہ : آیا قضاء روزوں میں پے در پے روزے رکھنے ضروری ہیں یا جدا جدا بھی رکھ لیے جائیں تو حرج نہیں ؟ ایک مذہب بعض لوگوں کا یہ ہے کہ قضاء کو مثل ادا کے پورا کرنا چاہیئے ، ایک کے پیچھے ایک یونہی لگاتار روزے رکھنے چاہئیں دوسرے یہ کہ پے در پے رکھنے واجب نہیں خواہ الگ الگ رکھے خواہ ایک ساتھ اختیار ہے جمہور سلف و خلف کا یہی قول ہے اور دلائل سے ثبوت بھی اسی کا ہے ، رمضان میں پے در پے رورزے رکھنا اس لیے ہیں کہ وہ مہینہ ہی ادائیگی روزہ کا ہے اور رمضان کے نکل جانے کے بعد تو صرف وہ گنتی پوری کرنی ہے خواہ کوئی دن ہو اسی لیے قضاء کے حکم کے بعد اللہ کی آسانی کی نعمت کا بیان ہوا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، بہتر دین وہی ہے جو آسانی والا ہو ، (مسند احمد:479/3:حسن) مسند ہی میں ایک اور حدیث میں ہے ، ابوعروہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے معلوم ہوتا تھا کہ وضو یا غسل کر کے تشریف لا رہے ہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کر دیے کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا فلاں کام میں کوئی حرج ہے ؟ فلاں کام میں کوئی حرج ہے ؟ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دین آسانیوں والا ہے تین مرتبہ یہی فرمایا ، (مسند احمد:69/5:ضعیف) مسند ہی کی ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو آسانی کرو سختی نہ کرو تسکین دو نفرت نہ دلاؤ ۔ (صحیح بخاری:6125) بخاری و مسلم کی حدیث میں بھی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا تم دونوں خوشخبریاں دینا ، نفرت نہ دلانا ، آسانیاں کرنا سختیاں نہ کرنا ، آپس میں اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا.(صحیح بخاری:6124) سنن اور مسانید میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں یکطرفہ نرمی اور آسانی والے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہوں ۔ (مسند احمد:266/5:حسن) سیدنا محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا غور سے آپ اسے دیکھتے رہے پھر فرمایا کیا تم اسے سچائی کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام اہل مدینہ سے زیادہ نماز پڑھنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے نہ سناؤ کہیں یہ اس کی ہلاکت کا باعث نہ ہو سنو اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس امت کے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں ۔ (مسند احمد:32/5:ضعیف) پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ مریض اور مسافر وغیرہ کو یہ رخصت دینا اور انہیں معذور جاننا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ آسانی کا ہے سختی کا نہیں اور قضاء کا حکم گنتی کے پورا کرنے کے لیے ہے اور اس رحمت نعمت ہدایت اور عبادت پر تمہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑائی اور ذکر کرنا چاہیئے جیسے اور جگہ حج کے موقع پر فرمایا آیت «فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَاءَکُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا» ( 2 ۔ البقرہ : 200 ) یعنی جب احکام حج ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو ۔ اور جگہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد فرمایا کہ جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور رزق تلاش کرو اور اللہ کا ذکر زیادہ کرو تاکہ تمہیں فلاح ملے ، اور جگہ فرمایا آیت «فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ» ( 15 ۔ الحجر : 98 ) یعنی سورج کے نکلنے سے پہلے سورج کے ڈوبنے سے پہلے رات کو اور سجدوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کیا کرو ، اسی لیے مسنون طریقہ یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد تسبیح اور تکبیر پڑھنی چاہیئے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز سے فارغ ہونا صرف اللہ اکبر کی آوازوں سے جانتے تھے ۔ (صحیح بخاری:843) یہ آیت دلیل ہے اس امر کی کہ عید الفطر میں بھی تکبیریں پڑھنی چاہئیں داود ، بن علی اصبہانی ظاہری رحمہ اللہ کا مذہب ہے کہ اس عید میں تکبیروں کا کہنا واجب ہے کیونکہ اس میں صیغہ امر کا ہے «ولتکبرو اللہ» اور اس کے بالکل برخلاف حنفی مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اس عید میں تکبیریں پڑھنا مسنون نہیں ، باقی بزرگان دین اسے مستحب بتاتے ہیں گو بعض تفصیلوں میں قدرے اختلاف ہے پھر فرمایا تاکہ تم شکر کرو یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لا کر اس کے فرائض کو ادا کر کے اس کے حرام کردہ کاموں سے بچ کر اس کی حدود کی حفاظت کر کے تم شکر گزار بندے بن جاؤ ۔