أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
عذاب کا شوق جلد پورا ہو گا اللہ تعالیٰ قیامت کی نزدیکی کی خبر دے رہا ہے اور گویا کہ وہ قائم ہو چکی ۔ اس لیے ماضی کے لفظ سے بیان فرماتا ہے جیسے فرمان ہے «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِی غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُونَ» (21-الأنبیاء:1) ’ لوگوں کا حساب قریب آ چکا پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ موڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ» ۱؎ (54-القمر:1) ’ قیامت آ چکی ، چاند پھٹ گیا ‘ ۔ پھر فرمایا ’ اس قریب والی چیز کے اور قریب ہونے کی تمنائیں نہ کرو ‘ ۔ «ہ» کی ضمیر کا مرجع یا تو لفظ اللہ ہے یعنی اللہ سے جلدی نہ چاہو یا عذاب ہیں یعنی عذابوں کی جلدی نہ مچاؤ ۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے لازم ملزوم ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَلَوْلَا أَجَلٌ مٰسَمًّی لَّجَاءَہُمُ الْعَذَابُ وَلَیَأْتِیَنَّہُم بَغْتَۃً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ یَسْتَعْجِلُونَکَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَۃٌ بِالْکَافِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:54-53) ’ یہ لوگ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں مگر ہماری طرف سے اس کا وقت مقرر نہ ہوتا تو بیشک ان پر عذاب آ جاتے لیکن عذاب ان پر آئے گا ضرور اور وہ بھی ناگہاں ان کی غفلت میں ۔ یہ عذابوں کی جلدی کرتے ہیں اور جہنم ان سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ‘ ۔ ضحاک رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کا ایک عجیب مطلب بیان کیا ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ مراد ہے کہ ” اللہ فرائض اور حدود نازل ہوچکے “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے خوب رد کیا ہے اور فرمایا ہے ” ایک شخص بھی تو ہمارے علم میں ایسا نہیں جس نے شریعت کے وجود سے پہلے اسے مانگنے میں عجلت کی ہو ۔ مراد اس سے عذابوں کی جلدی ہے جو کافروں کی عادت تھی کیونکہ وہ انہیں مانتے ہی نہ تھے “ ۔ جیسے قرآن پاک نے فرمایا ہے آیت «یَسْتَعْجِلُ بِہَا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِہَا وَالَّذِینَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْہَا وَیَعْلَمُونَ أَنَّہَا الْحَقٰ أَلَا إِنَّ الَّذِینَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَۃِ لَفِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (42-الشوری:18) ’ بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور ایماندار ان سے لرزاں و ترساں ہیں کیونکہ وہ انہیں برحق مانتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ عذاب الٰہی میں شک کرنے والے دور کی گمراہی میں جا پڑتے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { قیامت کے قریب مغرب کی جانب سے ڈھال کی طرح کا سیاہ ابر نمودار ہوگا اور وہ بہت جلد آسمان پر چڑھے گا پھر اس میں سے ایک منادی کرے گا لوگ تعجب سے ایک دوسرے سے کہیں گے میاں کچھ سنا بھی ؟ بعض ہاں کہیں گے اور بعض بات کو اڑا دیں گے وہ پھر دوبارہ ندا کرے گا اور کہے گا اے لوگو ! اب تو سب کہیں گے کہ ہاں صاحب آواز تو آئی ۔ پھر وہ تیسری دفعہ منادی کرے گا اور کہے گا اے لوگو امر الٰہی آ پہنچا اب جلدی نہ کرو ۔ اللہ کی قسم دو شخص جو کسی کپڑے کو پھیلائے ہوئے ہوں گے سمیٹنے بھی نہ پائیں گے جو قیامت قائم ہو جائے گی کوئی اپنے حوض کو ٹھیک کر رہا ہوگا ابھی پانی بھی پلا نہ پایا ہو گا جو قیامت آئے گی دودھ دوہنے والے پی بھی نہ سکیں گے کہ قیامت آ جائے گی ، ہر ایک نفسا نفسی میں لگ جائے گا } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:325/17:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ اپنے نفس کریم سے شرک اور عبادت غیر پاکیزگی بیان فرماتا ہے فی الواقع وہ ان تمام باتوں سے پاک بہت دور اور بہت بلند ہے یہی مشرک ہیں جو منکر قیامت بھی ہیں اللہ سجانہ و تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے ۔