سورة الحجر - آیت 94

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس اس کا صاف اعلان کر دے جس کا تجھے حکم دیا جاتا ہے اور مشرکوں سے منہ پھیر لے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے مخالفین کا عبرتناک انجام حکم ہو رہا ہے کہ ’ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کی باتیں لوگوں کو صاف صاف بے جھجک پہنچا دیں نہ کسی کی رو رعایت کیجئے نہ کسی کا ڈر خوف کیجئے ۔ مشرکوں کے سامنے توحید کھلم کھلا بیان کردیجئے ۔ خود عمل کرکے دوسروں تک پہنچایئے ۔ نماز میں قرآن با آواز بلند تلاوت کیجئے ‘ ۔ اس آیت کے اترنے سے پہلے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ تبلیغ فرماتے تھے لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کھلے طور پر اشاعت دین شروع کر دی ۔ «وَدٰوا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُونَ» ۱؎ (68-القلم:9) ’ ان مذاق اڑانے والوں کو ہم پر چھوڑ دے ہم خود ان سے نمٹ لیں گے تو اپنی تبلیغ کے فریضے میں کوتاہی نہ کر یہ تو چاہتے ہیں کہ ذرا سی سستی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیکھیں تو خود بھی دست بردار ہو جائیں ‘ ۔ ’ تو ان سے مطلقاً خوف نہ کر اللہ تعالیٰ تیرا حافظ و ناصر ہے وہ تجھے ان کے شر سے بچا لے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدہ:67) ’ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا ، اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے ‘ ۔ چنانچہ { ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے جا رہے تھے کہ بعض مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑا اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہیں نشتر مارا جس سے ان کے جسموں میں ایسا ہو گیا جیسے نیزے کے زخم ہوں اسی میں وہ مر گئے } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2222:ضعیف) اور یہ لوگ مشرکین کے بڑے بڑے رؤسا تھے ۔ بڑی عمر کے تھے اور نہایت شریف گنے جاتے تھے ۔ بنو اسد کے قبیلے میں سے تو اسود بن عبدالمطلب ابو زمعہ ، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی دشمن تھا ، ایذائیں دیا کرتا تھا اور مذاق اڑایا کرتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آ کر اس کے لیے بد دعا بھی کی تھی کہ { اے اللہ اسے اندھا کر دے بے اولاد کر دے } ۔ بنی زہر میں سے اسود تھا اور بنی مخزوم میں سے ولید تھا اور بنی سہم میں سے عاص بن وائل تھا ۔ اور خزاعہ میں سے حارث تھا ۔ یہ لوگ برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء رسائی کے درپے لگے رہتے تھے اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابھارا کرتے تھے اور جو تکلیف ان کے بس میں ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا کرتے جب یہ اپنے مظالم میں حد سے گزر گئے اور بات بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَلَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ» (15-الحجر:94-96) تک کی آیتیں نازل فرمائیں ۔ کہتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے بیت اللہ شریف میں آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اتنے میں اسود بن عبد یغوث آپ کے پاس سے گزرا تو جبرائیل علیہ السلام نے اس کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا اسے پیٹ کی بیماری ہو گئی اور اسی میں وہ مرا ۔ اتنے میں ولید بن مغیرہ گزرا اس کی ایڑی ایک خزاعی شخص کے تیر کے پھل سے کچھ یونہی سی چھل گئی تھی اور اسے بھی دو سال گزر چکے تھے جبرائیل علیہ السلام نے اسی کی طرف اشارہ کیا وہ پھول گئی ، پکی اور اسی میں وہ مرا ۔ پھر عاص بن وائل گزرا ۔ اس کے تلوے کی طرف اشارہ کیا کچھ دنوں بعد یہ طائف جانے کے لیے اپنے گدھے پر سوار چلا ۔ راستے میں گر پڑا اور تلوے میں کیل گھس گئی جس نے اس کی جان لی ۔ حارث کے سر کی طرف اشارہ کیا اسے خون آنے لگا اور اسی میں مرا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:550/7:اسنادہ فیہ جہالتہ) ان سب موذیوں کا سردار ولید بن مغیرہ تھا اسی نے انہیں جمع کیا تھا پس یہ پانچ یا سات شخص تھے جو جڑ تھے اور ان کے اشاروں سے اور ذلیل لوگ بھی کمینہ پن کی حرکتیں کرتے رہتے تھے ۔ یہ لوگ اس لغو حرکت کے ساتھ ہی یہ بھی کرتے تھے کہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے تھے ۔ ’ انہیں اپنے کرتوت کا مزہ ابھی ابھی آ جائے گا ۔ اور بھی جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کا یہی حال ہے ۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی بکواس سے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تکلیف ہوتی ہے دل تنگ ہوتا ہے لیکن تم ان کا خیال بھی نہ کرو ۔ اللہ تمہارا مدد گار ہے ۔ تم اپنے رب کے ذکر اور اس کی تسبیح اور حمد میں لگے رہو ۔ اس کی عبادت جی بھر کر کرو نماز کا خیال رکھو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دو ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ اے ابن آدم شروع دن کی چار رکعت سے عاجز نہ ہو میں تجھے آخر دن تک کفایت کروں گا ‘ } } ۔ (سنن ابوداود:1289،قال الشیخ الألبانی:صحیح) { حضور علیہ السلام کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی گھبراہٹ کا معاملہ آ پڑتا تو آپ نماز شروع کر دیتے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1319،قال الشیخ الألبانی:حسن) یقین کا مفہوم یقین سے مراد اس آخری آیت میں موت ہے اس کی دلیل سورۃ المدثر کی وہ آیتیں ہیں جن میں بیان ہے کہ «قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّیٰ أَتَانَا الْیَقِینُ» ۱؎ (74-المدثر:43-47) ’ جہنمی اپنی برائیاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے مسکینوں کو کھانا کھلاتے نہیں تھے باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ موت آ گئی ‘ ، یہاں بھی موت کی جگہ لفظ یقین ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے کہ { عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو انصار کی ایک عورت ام العلاء نے کہا کہ اے ابو السائب اللہ کی تجھ پر رحمتیں ہوں بیشک اللہ تعالیٰ نے تیری تکریم و عزت کی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا : { تجھے کیسے یقین ہو گیا کہ اللہ نے اس کا اکرام کیا ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں پھر کون ہوگا جس کا اکرام ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { «أَمَّا ہُوَ فَقَدْ جَاءَہُ الْیَقِینُ ، وَإِنِّی لَأَرْجُو لَہُ الْخَیْرَ» سنو اسے موت آ چکی اور مجھے اس کے لئے بھلائی کی امید ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1243) اس حدیث میں بھی موت کی جگہ یقین کا لفظ ہے ۔ اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز وغیرہ عبادات انسان پر فرض ہیں جب تک کہ اس کی عقل باقی رہے اور ہوش حواس ثابت ہوں جیسی اس کی حالت ہو اسی کے مطابق نماز ادا کرلے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { کھڑے ہو کر نماز ادا کر ، نہ ہو سکے تو بیٹھ کر ، نہ ہو سکے تو کروٹ پر لیٹ کر } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1117) بد مذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی ایک بات گھڑلی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادات فرض رہتی ہیں لیکن جب معرفت کی منزلیں طے کر چکا تو عبادت کی تکلیف ساقط ہو جاتی ہے یہ سراسر کفر ضلالت اور جہالت ہے ۔ یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیاء اور حضور سرور انبیاء علیہم السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم معرفت کے تمام درجے طے کر چکے تھے اور دین کے علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے رب کی صفات اور ذات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے سب سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے تھے اور رب کی اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول رہتے تھے اور دنیا کے آخری دم تک اسی میں لگے رہے ۔ پس ثابت ہے کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے تمام مفسرین صحابہ تابعین و غیرہ کا یہی مذہب ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اللہ تعالیٰ کا شکرو احسان ہے اس نے جو ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اسی سے نیک کاموں میں مدد پاتے ہیں اسی کی پاک ذات پر ہمارا بھروسہ ہے ہم اس مالک حاکم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ بہترین اور کامل اسلام ایمان اور نیکی پر موت دے وہ جواد ہے اور کریم ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الحجر کی تفسیر ختم ہوئی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے «وَالْحَمْدُ لِلہِ عَلَی الْہِدَایَۃِ» ۔