سورة الحجر - آیت 21

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کوئی بھی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ تعالٰی کے خزانے تمام چیزوں کا تنہا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔ ہر کام اس پر آسان ہے ۔ ہر قسم کی چیزوں کے خزانے اس کے پاس موجود ہیں ۔ جتنا ، جب اور جہاں چاہتا ہے ، نازل فرماتا ہے ۔ اپنی حکمتوں کا عالم وہی ہے ۔ بندوں کی مصلحتوں سے بھی واقف ہے ۔ یہ محض اس کی مہربانی ہے ورنہ کون ہے جو اس پر جبر کر سکے ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر سال بارش برابر ہی برستی ہے ، ہاں تقسم اللہ کے ہاتھ ہے ، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حکم بن عیینہ سے بھی یہی قول مروی ہے ، کہتے ہیں کہ بارش کے ساتھ اس قدر فرشتے اترتے ہیں ، جن کی گنتی کل انسانوں اور جنات سے زیادہ ہوتی ہے ، ایک ایک قطرے کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ کہاں برسا اور اس سے کیا اگا ۔ مسند بزار میں ہے کہ { اللہ کے پاس کے خزانے کیا ہیں ؟ صرف کلام ہے جب کہا ہو جا ہو گیا } ۔ ۱؎ (المیزان:1021:ضعیف جدا) اس کا ایک روای قوی نہیں ۔ ’ ہوا چلا کر ہم بادلوں کو پانی سے بوجھل کر دیتے ہیں ، اس میں پانی برسنے لگتا ہے ۔ یہی ہوائیں چل کر درختوں کو بار دار کر دیتی ہیں کہ پتے اور کونپلیں پھوٹنے لگتی ہیں ‘ ، اس وصف کو بھی خیال میں رکھئے کہ یہاں جمع کا صیغہ لائے ہیں اور «الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ» میں وصف وحدت کے ساتھ کیا ہے تاکہ کثرت سے نتیجہ بر آمد ہو ۔ بارداری کم از کم دو چیزوں کے بغیر ناممکن ہے ۔ ہوا چلتی ہے وہ آسمان سے پانی اٹھاتی ہے اور بادلوں کو پر کر دیتی ہے ۔ ایک ہوا ہوتی ہے جو زمین میں پیداوار کی قوت پیدا کرتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو بادلوں کو ادھر ادھر سے اٹھاتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں جمع کر کے تہ بہ تہ کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو انہیں پانی سے بوجھل کر دیتی ہے ، ایک ہوا ہوتی ہے جو درختوں کو پھل دار ہونے کے قابل کردیتی ہے ۔ ابن جریر میں بہ سند ضعیف ایک حدیث مروی ہے کہ { جنوبی ہوا جنتی ہے اس میں لوگوں کے منافع ہیں اور اسی کا ذکر کتاب اللہ میں ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21109:ضعیف) مسند حمیدی کی حدیث میں ہے کہ { ہواؤں کے سات سال بعد اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک ہوا پیدا کی ہے جو ایک دروازے سے رکی ہوئی ہے ۔ اسی بند دروازے سے تمہیں ہوا پہنچتی رہتی ہے ، اگر وہ کھل جائے تو زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہوا سے الٹ پلٹ ہو جائیں ۔ اللہ کے ہاں اس کا نام اذیب ہے ، تم اسے جنوبی ہوا کہتے ہو } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2088:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ اس کے بعد ہم تم پر میٹھا پانی برساتے ہیں کہ تم پیو اور کام میں لاؤ ۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا اور کھاری کر دیں ‘ ۔ جیسے سورۃ الواقعہ میں فرمان ہے کہ «أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاہُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:68-70) ’ جس میٹھے پانی کو تم پیا کرتے ہو اسے بادل سے برسانے والے بھی کیا تم ہی ہو ؟ یا ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں تعجب ہے کہ تم ہماری شکر گزاری نہیں کرتے ؟ ‘ اور آیت میں ہے «ہُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّکُم مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیہِ تُسِیمُونَ» ۱؎ (16-النحل:10) ’ اسی اللہ نے تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ہے جسے تم پیتے بھی ہو اور اسی سے اگے ہوئے درختوں کو تم اپنے جانوروں کو چراتے ہو ‘ ۔ ’ تم اس کے خازن یعنی مانع اور حافظ نہیں ہو ۔ ہم ہی برساتے ہیں ہم ہی جہاں چاہتے ہیں ، پہنچاتے ہیں ، جہاں چاہتے ہیں ، محفوظ کردیتے ہیں ۔ اگر ہم چاہیں زمین میں دھنسا دیں ‘ ۔ ’ یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ اسے برسایا ، بچایا ، میٹھا کیا ، ستھرا کیا تاکہ تم پیو ، اپنے جانوروں کو پلاؤ ۔ اپنی کھیتیاں اور باغات بساؤ ، ؟ اپنی ضرورتیں پوری کرو ۔ ہم مخلوق کی ابتداء اور پھر اس کے اعادہ پر قادر ہیں ۔ سب کو عدم سے وجود میں لائے ۔ سب کو پھر معدوم ہم کریں گے ۔ پھر قیامت کے دن سب کو اٹھا بٹھائیں گے ‘ ۔ ’ زمین کے اور زمین والوں کے وارث ہم ہی ہیں ۔ سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے ۔ ہمارے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ اول آخر سب ہمارے علم میں ہے ‘ ۔ پس آگے والوں سے مراد تو اس زمانے سے پہلے کے لوگ ہیں آدم علیہ السلام تک کے ۔ اور پچھلوں سے مراد اس زمانے کے اور آئندہ زمانے کے لوگ ہیں ۔ مروان بن حکم سے مروی ہے کہ بعض لوگ بوجہ عورتوں کے پچھلی صفوں میں رہا کرتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ اس بارے میں ایک بہت ہی غریب حدیث بھی وارد ہوئی ہے ۔ ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک بہت ہی خوش شکل عورت نماز میں آیا کرتی تھی تو بعض مسلمان اس خیال سے کہ اس پر نگاہ نہ پڑے ۔ آگے بڑھ جاتے تھے اور بعض ان کے خلاف اور پیچھے ہٹ آتے تھے اور سجدے کی حالت میں اپنے ہاتھوں تلے سے دیکھتے تھے پس یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:1046،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس روایت میں سخت نکارت ہے ۔ عبدالرزاق میں ابو الجواز کا قول اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ ” نماز کی صفوں میں آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے “ ۔ یہ صرف ان کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اس میں ذکر نہیں ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ” یہی مشابہ ہے “ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ محمد بن کعب کے سامنے عون بن عبداللہ جب یہ کہتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں ” یہ مطلب نہیں بلکہ اگلوں سے مراد وہ ہیں جو مر چکے اور پچھلوں سے مراد اب پیدا شدہ اور پیدا ہونے والے ہیں ۔ تیرا رب سب کو جمع کرے گا وہ حکمت و علم والا ہے “ ۔ یہ سن کر عون رحمہ اللہ نے فرمایا ” اللہ آپ کو توفیق اور جزائے خیر دے “ ۔