سورة ابراھیم - آیت 49

وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تو مجرموں کو اس دن زنجیروں میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑے ہوئے دیکھے گا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

جکڑے ہوئے مفسد انسان ’ زمین و آسمان بدلے ہوئے ہیں ۔ مخلوق اللہ کے سامنے کھڑی ہے ، اس دن اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم دیکھو گے کہ کفر و فساد کرنے والے گنہگار آپس میں جکڑے بندھے ہوئے ہوں گے ہر ہر قسم کے گنہگار دوسروں سے ملے جلے ہوئے ہوں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ» ۱؎ (37-الصافات:22) ’ ظالموں کو اور ان کی جوڑ کے لوگوں کو اکٹھا کرو ‘ اور آیت میں ہے «وَاِذَا النٰفُوْسُ زُوِّجَتْ» ۱؎ (81-التکویر:7) ’ جب کہ نفس کے جوڑے ملا دیے جائیں ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «وَاِذَآ اُلْقُوْا مِنْہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مٰقَرَّنِیْنَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُوْرًا» ۱؎ (25-الفرقان:13) یعنی ’ جب کہ جہنم کے تنگ مکان میں وہ ملے جلے ڈالے جائیں گے تو ہاں وہ موت موت پکاریں گے ‘ ۔ سلیمان علیہ السلام کے جنات کی بابت بھی «وَالشَّیَاطِینَ کُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ وَآخَرِینَ مُقَرَّنِینَ فِی الْأَصْفَادِ» (38-ص:38 ، 37) «أَصْفَادِ» کا لفظ ہے ۔ «أَصْفَادِ» کہتے ہیں قید کی زنجیروں کو عمرو بن کلثوم کے شعر میں «فَآبُوا بِالثِّیَابِ وَبِالسَّبَایَا وأُبْنَا بِالْمُلُوکِ مُصَفَّدِینَا» ، «مُصَفَّدِ» زنجیروں میں جکڑے ہوئے قیدی کے معنی میں آیا ہے ۔ جو کپڑے انہیں پہنائے جائیں گے وہ گندھک کے ہوں گے جو اونٹوں کو لگایا جاتا ہے اسے آگ تیزی اور سرعت سے پکڑتی ہے یہ لفظ «قَطِرَان» بھی ہے «قَطّرَانِ» بھی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، ” پگھلے ہوئے تانبے کو «قَطِرَانٍ» کہتے ہیں اس سخت گرم آگ جیسے تانبے کے ان دوزخیوں کے لباس ہوں گے “ ۔ «تَلْفَحُ وُجُوہَہُمُ النَّارُ وَہُمْ فِیہَا کَالِحُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:104) ’ ان کے منہ بھی آگ میں ڈھکے ہوئے ہوں گے چہروں تک آگ چڑھی ہوئی ہوگی ، سر سے شعلے بلند ہو رہے ہوں گے ، منہ بگڑ گئے ہوں گے ‘ ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری امت میں چار کام جاہلیت کے ہیں جو ان سے نہ چھوٹیں گے حسب پر فخر ، نسب میں طعنہ زنی ، ستاروں سے بارش کی طلبی ، میت پر نوحہ کرنے والی نے اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرلی تو اسے قیامت کے دن گندھک کا کرتا اور کھجلی کا دوپٹا پہنایا جائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:342/5:صحیح) مسلم میں بھی یہ حدیث ہے (صحیح مسلم:934) اور روایت میں ہے کہ { وہ جنت دوزخ کے درمیان کھڑی کی جائے گی گندھک کا کرتا ہو گا اور منہ پر آگ کھیل رہی ہو گی } ۔ (طبرانی کبیر:18/8-78:ضعیف) «لِیَجْزِیَ الَّذِینَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِینَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی» ۱؎ (53-النجم:31) ’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کاموں کا بدلہ دے گا ۔ بروں کی برائیاں سامنے آ جائیں گی نیک کام کرنے والوں کو اچھا بدلہ عنایت فرمائے گا ‘ ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی جلد ساری مخلوق کے حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ ممکن ہے یہ آیت بھی مثل «اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مٰعْرِضُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:1) کے ہو یعنی ’ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا لیکن پھر بھی وہ غفلت کے ساتھ منہ پھیرے ہوئے ہی ہیں ‘ ۔ اور ممکن ہے کہ بندے کے حساب کے وقت کا بیان ہو ۔ یعنی بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا ۔ کیونکہ وہ تمام باتوں کا جاننے والا ہے اس پر ایک بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ جیسے ایک ویسے ہی ساری مخلوق ۔ جیسے فرمان ہے «مَا خَلْقُکُمْ وَلَا بَعْثُکُمْ اِلَّا کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ» ۱؎ (31-لقمان:28) ’ تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد کا زندہ کر دینا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو مارنا اور جلانا ‘ ۔ یہی معنی حضرت مجاہد رحمہ اللہ کے قول کے ہیں کہ ” حساب کے احاطے میں اللہ تعالیٰ بہت جلدی کرنے والا ہے “ ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں معنی مراد ہوں یعنی وقت حساب بھی قریب اور اللہ کو حساب میں دیر بھی نہیں ۔ ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔