أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔
لا الہ الا اللہ کی شہادت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ، کلمہ طیبہ سے مراد «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت ہے ۔ پاکیزہ درخت کی طرح کا مومن ہے اس کی جڑ مضبوط ہے ۔ یعنی مومن کے دل میں «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» جما ہوا ہے اس کی شاخ آسمان میں ہے ۔ یعنی اس توحید کے کلمہ کی وجہ سے اس کے اعمال آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/7) کہ مراد اس سے مومن کے اعمال ہیں اور اس کے پاک اقوال اور نیک کام ۔ مومن مثل کھجور کے درخت کے ہے ۔ ہر وقت ہر صبح ہر شام اس کے اعمال آسمان پر چڑھتے رہتے ہیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/7) { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک خوشہ لایا گیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کا پہلا حصہ تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ { پاک درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے } } ۔ (سنن ترمذی:3119،قال الشیخ الألبانی:مرفوعاً ضعیف) صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کے مشابہ ہے ؟ جس کے پتے نہیں جھڑتے نہ جاڑوں میں نہ گرمیوں میں جو اپنا پھل ہر موسم میں لاتا رہتا ہے ؟ } سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں وہ درخت کھجور کا ہے ۔ لیکن میں نے دیکھا کہ مجلس میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہیں اور وہ خاموش ہیں تو میں بھی چپ سا ہو رہا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ درخت کھجور کا ہے } ۔ جب یہاں سے اٹھ کر چلے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا ۔ تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ” پیارے بچے اگر تم یہ جواب دے دیتے تو مجھے تو تمام چیزوں کے مل جانے سے بھی زیادہ محبوب تھا “ } ۔ (صحیح بخاری:4698) حضرت مجاہد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں مدینہ شریف تک سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا لیکن سوائے ایک حدیث کے اور کوئی روایت انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے ہوئے نہیں سنا اس میں ہے کہ { یہ سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا ۔ جب آپ کے سامنے کھجور کے درخت کے بیچ کا گودا لایا گیا تھا ۔ میں اس لیے خاموش رہا کہ میں اس مجلس میں سب سے کم عمر تھا } ۔ (صحیح بخاری:2209) اور روایت میں ہے کہ { جواب دینے والوں کا خیال اس وقت جنگلی درختوں کی طرف چلا گیا } ۔ (صحیح بخاری:131) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مالدار لوگ درجات میں بہت بڑھ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { یاد رکھو اگر تمام دنیا کی چیزیں لگ کر انبار لگا دو تو بھی وہ آسمان تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔ تجھے ایسا عمل بتلاؤں جس کی جڑ مضبوط اور جس کی شاخیں آسمان میں ہیں } ۔ اس نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا : دعا «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ ، وَ اللہُ أَکْبَرُ ، وَسُبْحَانَ اللہِ ، وَالْحَمْدُ لِلہِ» ہر فرض نماز کے بعد دس بار کہہ لیا کرو جس کی اصل مضبوط اور جس کی فرع آسمان میں ہے } ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” وہ پاکیزہ درخت جنت میں ہے ، ہر وقت اپنا پھل لائے یعنی صبح شام یا ہر ماہ میں یا ہر دو ماہ میں یا ہر ششماہی میں یا ہر ساتویں مہینے یا ہر سال “ ۔ لیکن الفاظ کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ مومن کی مثال اس درخت جیسی ہے جس کے پھل ہر وقت جاڑے گرمی میں دن رات میں اترتے رہتے ہیں اسی طرح مومن کے نیک اعمال دن رات کے ہر وقت چڑھتے رہتے ہیں اس کے رب کے حکم سے یعنی کامل ، اچھے ، بہت اور عمدہ ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبرت ان کی سوچ سمجھ اور ان کی نصیحت کے لیے مثالیں واضح فرماتا ہے ۔ پھر برے کلمہ کی یعنی کافر کی مثال بیان فرمائی ۔ جس کی کوئی اصل نہیں ، جو مضبوط نہیں ، اس کی مثال اندرائن کے درخت سے دی ۔ جسے حنظل اور شریان کہتے ہیں ۔ ایک موقوف روایت میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور یہی روایت مرفوعاً بھی آئی ہے ۔ (سنن ترمذی:3119،قال الشیخ الألبانی:ضعیف مرفوع) اس درخت کی جڑ زمین کی تہ میں نہیں ہوتی جھٹکا مارا اور اکھڑ آیا ۔ اسی طرح سے کفر بے جڑ اور بے شاخ ہے ، کافر کا نہ کوئی نیک عمل چڑھے نہ مقبول ہو ۔