سورة ابراھیم - آیت 1

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

الۤرٰ۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے، تاکہ تو لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے، ان کے رب کے اذن سے، اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بے حد تعریف والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

تفسیر سورۂ ابراھیم حروف مقطعہ جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں انکا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ اے نبی! یہ عظیم الشان کتاب ہم نے تیری طرف اتاری ہے ۔ یہ کتاب تمام کتابوں سے اعلیٰ ، رسول تمام رسولوں سے افضل و بالا ۔ جہاں اتری وہ جگہ دنیا کی تمام جگہوں سے بہترین اور عمدہ ۔ اس کتاب کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے تو لوگوں کو اندھیروں سے اجالے میں لا سکتا ہے ۔ تیرا پہلا کام یہ ہے کہ گمراہیوں کو ہدایت سے برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے ایمانداروں کا حمایتی خود اللہ ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے میں لاتا ہے اور کافروں کے کے ساتھی اللہ کے سوا اور ہیں جو انہیں نور سے ہٹا کر تاریکیوں میں پھانس دیتے ہیں ۔ « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ أُولٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) ’ اللہ اپنے غلام پر اپنی روشن اور واضح نشانیاں اتارتا ہے کہ وہ تمہیں تاریکیوں سے ہٹا کر نور کی طرف پہنچا دے ‘ ۔ «الَّذِی یُنَزِّلُ عَلَیٰ عَبْدِہِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ لِّیُخْرِجَکُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَإِنَّ اللہَ بِکُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (57-الحدید:9) اصل ہادی اللہ ہی ہے رسولوں کے ہاتھوں جن کی ہدایت اسے منظور ہوتی ہے وہ راہ پا لیتے ہیں اور غیر مغلوب پر غالب زبردست اور ہر چیز پر بادشاہ بن جاتے ہیں اور ہر حال میں تعریفوں والے اللہ کی راہ کی طرف ان کی رہبری ہو جاتی ہے ۔ «اللہِ ِ» کی دوسری قرأت «اللہُ» بھی ہے پہلی قرأت بطور صفت کے ہے اور دوسری بطور نئے جملے کے جیسے آیت « قُلْ یَاأَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ» ۱؎ (7-الأعراف:158) ، میں ۔ جو کافر تیرے مخالف ہیں تجھے نہیں مانتے انہیں قیامت کے دن سخت عذاب ہوں گے ۔ یہ لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں دنیا کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں اور آخرت کو بھولے بیٹھے ہیں رسولوں کی تابعداری سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں راہ حق جو سیدھی اور صاف ہے اسے ٹیڑھی ترچھی کرنا چاہتے ہیں یہ اسی جہالت ضلالت میں رہیں گے لیکن اللہ کی راہ نہ ٹیڑھی ہوئی نہ ہو گی ۔ پھر ایسی حالت میں ان کی صلاحیت کی کیا امید ؟