سورة یوسف - آیت 80

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب وہ اس سے بالکل ناامید ہوگئے تو مشورہ کرتے ہوئے الگ جا بیٹھے، ان کے بڑے نے کہا کیا تم نے نہیں جانا کہ تمھارا باپ تم سے اللہ کا عہد لے چکا ہے اور اس سے پہلے تم نے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی کی، اب میں اس زمین سے ہرگز نہ ہلوں گا یہاں تک کہ میرا باپ مجھے اجازت دے، یا اللہ میرے لیے فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. جب برادران یوسف اپنے بھائی کے چھٹکار سے مایوس ہو گئے ، انہیں اس بات نے شش وپنچ میں ڈال دیا کہ ہم والد سے سخت عہد پیمان کر کے آئے ہیں کہ بنیامین کو آپ کے حضور میں پہنچا دیں گے ۔ اب یہاں سے یہ کسی طرح چھوٹ نہیں سکتے ۔ الزام ثابت ہو چکا ہماری اپنی قراد داد کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھہر چکے اب بتاؤ کیا کیا جائے اس آپس کے مشورے میں بڑے بھائی نے اپنا خیال ان لفظوں میں ظاہر کیا کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس زبردست ٹھوس وعدے کے بعد جو ہم ابا جان سے کر کے آئے ہیں ، اب انہیں منہ دکھانے کے قابل تو نہیں رہے نہ یہ ہمارے بس کی بات ہے کہ کسی طرح بنیامین کو شاہی قید سے آزاد کر لیں پھر اس وقت ہمیں اپنا پہلا قصور اور نادم کر رہا ہے جو یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہم سے اس سے پہلے سرزد ہو چکا ہے پس اب میں تو یہیں رک جاتا ہوں ۔ یہاں تک کہ یا تو والد صاحب میرا قصور معاف فرما کر مجھے اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت دیں یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی فیصلہ بجھا دے کہ میں یا تو لڑ بھڑ کر اپنے بھائی کو لے کر جاؤں یا اللہ تعالیٰ کوئی اور صورت بنا دے ۔ کہا گیا ہے کہ ان کا نام روبیل تھا یا یہودا تھا یہی تھے کہ یوسف علیہ السلام کو جب اور بھائیوں نے قتل کرنا چاہا تھا انہوں نے روکا تھا ۔