يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اے قید خانے کے دو ساتھیو! کیا الگ الگ رب بہتر ہیں یا اللہ، جو اکیلا ہے، نہایت زبردست ہے؟
شاہی باورچی اور ساقی کے خواب کی تعبیر اور پیغام توحید یوسف علیہ السلام سے وہ اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے انہیں تعبیر خواب بتا دینے کا اقرار کر لیا ہے ۔ لیکن اس سے پہلے انہیں توحید کا وعظ سنا رہے ہیں اور شرک سے اور مخلوق پرستی سے نفرت دلا رہے ہیں ۔ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ واحد جس نے ہرچیز پر قبضہ ہے جس کے سامنے تمام مخلوق پست و عاجز لاچار بے بس ہے ۔ جس کا ثانی شریک اور ساجھی کوئی نہیں ۔ جس کی عظمت و سلطنت چپے چپے اور ذرّے ذرّے پر ہے وہی ایک بہتر ؟ یا تمہارے یہ خیالی کمزور اور ناکارے بہت سے معبود بہتر ؟ پھر فرمایا کہ تم جن جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو بےسند ہیں ۔ یہ نام اور ان کے لیے عبادت یہ تمہاری اپنی گھڑت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہارے باپ دادے بھی اس مرض کے مریض تھے ۔ لیکن کوئی دلیل اس کی تم لا نہیں سکتے بلکہ اس کی کوئی عقلی دلیل دنیا میں اللہ نے بنائی نہیں ۔ حکم تصرف قبضہ ، قدرت ، کل کی کل اللہ تعالیٰ ہی کی ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کا اور اپنے سوا کسی اور کی عبادت کرنے سے باز آنے کا قطعی اور حتمی حکم دے رکھا ہے ۔ دین مستقیم یہی ہے کہ اللہ کی توحید ہو اس کے لیے ہی عمل و عبادت ہو ۔ اسی اللہ کا حکم اس پر بےشمار دلیلیں موجود ۔ لیکن اکثر لوگ ان باتوں سے ناواقف ہیں ۔ نادان ہیں توحید و شرک کا فرق نہیں جانتے ۔ اس لیے اکثر شک کے دلدل میں دھنسے رہتے ہیں ۔ باوجود نبیوں کی چاہت کے انہیں یہ امن نصیب نہیں ہوتا ۔ خواب کی تعبیر سے پہلے اس بحث کے چھیڑنے کی ایک خاص مصلحت یہ بھی کہ ان میں سے ایک کے لیے تعبیر نہایت بری تھی تو آپ علیہ السلام نے چاہا کہ یہ اسے نہ پوچھیں تو بہتر ہے ۔ لیکن اس تکلف کی کیا ضرورت ہے ؟ خصوصا ایسے موقعہ پر جب کہ اللہ کے پیغمبر ان سے تعبیر دینے کا وعدہ کر چکے ہیں ۔ یہاں تو صرف یہ بات ہے کہ انہوں نے آپ کی بزرگی و عزت دیکھ کر آپ سے ایک بات پوچھی ۔ آپ علیہ السلام نے اس کے جواب سے پہلے انہیں اس سے زیادہ بہتر کی طرف توجہ دلائی ۔ اور دین اسلام ان کے سامنے مع دلائل پیش فرمایا ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام نے دیکھا تھا کہ ان میں بھلائی کے قبول کرنے کا مادہ ہے ۔ بات کو سوچیں گے ۔ جب آپ اپنا فرض ادا کر چکے ۔ احکام اللہ کی تبلیغ کر چکے ۔ تو اب بغیر اس کے کہ وہ دوبارہ پوچھیں آپ نے ان کا جواب شروع کیا ۔