وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ
اور رہ گئے وہ جو خوش قسمت بنائے گئے تو وہ جنت میں ہوں گے، ہمیشہ اس میں رہنے والے، جب تک سارے آسمان اور زمین قائم ہیں مگر جو تیرا رب چاہے۔ ایسا عطیہ جو قطع کیا جانے والا نہیں۔
انبیاء کے فرماں بردار اور جنت رسولوں کے تابعدار جنت میں رہیں گے ۔ جہاں سے کبھی نکلنا نہ ہو گا ۔ زمین و آسمان کی بقا تک ان کی بھی جنت میں بقا رہے گی «إِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیدُ» ۱؎ (11-ہود:107) یعنی ’ مگر جو اللہ چاہے ‘ یعنی یہ بات بذاتہ واجب نہیں بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے پر ہے ۔ بقول ضحاک رحمہ اللہ و حسن رحمہ اللہ ” یہ بھی موحد گنہگاروں کے حق میں ہے وہ کچھ مدت جہنم میں گزار کر اس کے بعد وہاں سے نکالے جائیں گے یہ عطیہ ربانی ہے جو ختم نہ ہوگا ، نہ گھٹے گا ۔ یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں ذکر مشیت سے یہ کھٹکا نہ گزرے کہ ہمیشگی نہیں “ ۔ جیسے کہ دوزخیوں کے دوام کے بعد بھی اپنی مشیت اور ارادے کی طرف رجوع کیا ہے ۔ سب اس کی حکمت و عدل ہے وہ ہر اس کام کو کر گزرتا ہے جس کا ارادہ کرے ۔ بخاری و مسلم میں ہے { موت کو چتکبرے مینڈھے کی صورت میں لایا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا ۔ پھر فرما دیا جائے گا کہ اہل جنت تم ہمیشہ رہو گے اور موت نہیں اور جہنم والوں تمہارے لیے ہمیشگی ہے موت نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4830)